شام کے حزب مخالف کے گروپوں نے صدر بشار الاسد کی حکومت سے بات چیت کے بنیادی ڈھانچے پر اتفاق کر لیا ہے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے ایک غیر معمولی اجلاس میں شام کی سیاسی حزب مخالف اور ملسح دھڑوں کے ایک سو سے زیادہ نمائندے شریک ہوئے جنہوں نے بات چیت کے انعقاد کے منصوبے کو آگے بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا۔
ان گروپوں نے اب مذاکرات کے لیے اپنے نمائندے چننے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ "ہمیں معلوم ہے کہ اب بھی بہت سا مشکل کام کرنا باقی ہے اور پیش رفت کے لیے تمام معاملات ابھی حل نہیں ہوئے۔"
سعودی عرب میں یہ بات چیت گزشتہ ماہ ویانا میں 20 سے زائد ممالک کے ہونے والے اجلاس میں طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں ہوئی۔
بین الاقوامی سریئن اسپورٹ گروپ نامی اس گروپ نے اسد حکومت اور معتدل حزب مخالف کے مابین مذاکرات کے لیے آئندہ سال یکم جنوری تک کی ڈیڈ لائن متعین کی ہے۔ یہ مذاکرات شام کے تنازع کے سیاسی حل کا حصہ ہیں۔
سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کے گروپوں نے "سیاسی عمل کے ذریعے عوام کی نمائندگی کے ساتھ ایسی حکومت قائم کرنے کے مذاکرات پر اتفاق کیا جس میں مستقبل میں بشارالاسد کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔"
امریکی محکمہ خارجہ جان کیری نے ریاض میں ہونے والی کانفرنس کے "مثبت نتیجے" کا خیر مقدم کیا ہے۔
"ہم اس بات کو سراہتے ہیں کہ شامیوں کے مختلف گروپوں نے ایک نئے شام کی تعمیر کے لیے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا۔"
اس سے قبل یہ خبریں بھی آئی تھیں شامی حزب مخالف کا ایک اہم گروپ 'الحرار الشام' بات چیت سے علیحدہ ہو گیا ہے۔ لیکن جان کربی کا کہنا تھا کہ اس گروپ نے بھی بات چیت میں حصہ لیا۔