شام میں حزبِ اختلاف کے مرکزی اتحاد نے اقوامِ متحدہ سے امن مذاکرات معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ باغیوں نے جنگ بندی کے باوجود صدر بشار الاسد کی حامی فوج کے خلاف نئے حملے کیے ہیں۔
جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں جاری مذاکرات میں شریک شامی حزبِ اختلاف کے وفد کے تین ارکان نے پیر کو شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی مستورا سے ملاقات کی اور انہیں حزبِ اختلاف کے فیصلے سے آگاہ کیا۔
وفد کے ایک رکن محمد الابعود نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ انہوں نے عالمی ادارے کے ایلچی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حالات سازگار ہونے تک مذاکرات ملتوی کردیں۔
ملاقات کے بعدشامی حزبِ اختلاف کے اتحاد 'اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی' کی جانب سے جاری ایک بیان میں مذاکرات ملتوی کرنے کے مطالبے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حزبِ اختلاف اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ شام میں مستقبل کے کسی بھی نظمِ حکومت میں صدر بشار الاسد کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات میں وقفے سے فریقین کو حزبِ اختلاف کے اس بنیادی مطالبے پر مزید غور کا وقت مل سکے گا۔
بیان میں حزبِ اختلاف کےا تحاد نے واضح کیا ہے کہ مذاکرات کے التوا کے مطالبے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حزبِ اختلاف مذاکرات کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔
مذاکراتی عمل میں شریک ایک غیرملکی سفارت کار نے خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ شامی حزبِ اختلاف کی خواہش ہے کہ اقوامِ متحدہ شامی حکومت اور اس کے مظالم کی کھل کر مذمت کرے۔
سفارت کار کے مطابق شامی حزبِ اختلاف کی خواہش ہے کہ ڈی مستورا اپنا وزن حزبِ اختلاف کے پلڑے میں ڈالیں اور مذاکرات سے متعلق شامی حکومت کے رویے پر کھلم کھلا تنقید کرکے اس پر دباؤ بڑھائیں۔
جنیوا مذاکرات میں شریک شامی حزبِ اختلاف کی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ریاض حجاب پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ اگر شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے باغیوں کے زیرِ انتظام علاقوں کا محاصرہ اور شہری آبادیوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا تو مذاکرات آگے نہیں بڑھیں گے۔
امریکہ اور روس کی کوششوں کے نتیجے میں شام میں 27 فروری کو نافذ ہونے والی جنگ بندی کا مقصد شامی حکومت اور اس کے خلاف برسرِ پیکار باغیوں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر لانا تھا تاکہ شام میں پانچ برسوں سے جاری خانہ جنگی کا سیاسی حل تلاش کیا جاسکے۔
اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کا ہدف فریقین کو شام میں عبوری حکومت کے قیام پر متفق کرنا ہے جو اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ملک میں آزادانہ انتخابات منعقد کرکے اقتدار منتخب نمائندوں کو سونپ سکے۔
لیکن روس اور ایران کی حمایتِ یافتہ شامی حکومت کا موقف ہے کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ صدر بشارالاسد کے مستقبل پر کوئی بات چیت نہیں ہوگی اور وہ مستقبل میں طے پانے والے کسی بھی نظمِ حکومت میں بدستور ملک کے سربراہ رہیں گے۔
تنازع کے دونوں فریقین جنگ بندی کے بعد سے مسلسل ایک دوسرے پر اس کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں اور شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کے نزدیک جاری لڑائی میں رواں ماہ تیزی آنے کے بعد سے ان الزامات اورکشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔
دریں اثنا شامی باغیوں نے پیر کو شام کے صوبے لتاکیہ میں سرکاری فوج پر بڑا حملہ کیا ہے جب کہ شمالی صوبے حما میں بھی باغی دستوں کی پیش قدمی کی اطلاعات ہیں۔
پیر کو باغیوں کی جانب سے جاری ایک بیان میں مذکرات میں شریک حزبِ اختلاف کے وفد پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بات چیت کے دوران شامی حکومت اور ڈی مستورا کی جانب سے پیش کیے جانے والے شام کے بحران کے "ادھورے حل" کے خلاف سخت موقف اپنائیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری نے شام میں محاصرے کا شکار علاقوں میں امداد پہنچانے، رہائشی علاقوں پر بمباری رکوانے اور قیدیوں کی رہائی کے جو وعدے کیے تھے وہ بھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔
بیان کے مطابق شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی ڈی مستورا کے جانبدارانہ اقدامات اور شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے لیے ان کی ہمدردی پر باغی گروہوں کو گہری تشویش ہے اور وہ عالمی ایلچی کے ایسے تمام اقدامات کو مسترد کرتے ہیں۔