شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے کہا ہے کہ شام میں عارضی جنگ بندی پر بڑی حد تک عمل درآمد کیا جارہا ہے اور اسی بنا پر گزشتہ پانچ سالوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے مذاکرات آئندہ ہفتے شروع ہوں گے۔
اسٹیفاں دی مستورا نے کہا کہ عارضی جنگ بندی چھ روز سے جاری ہے اور ان کے بقول شام کی پانچ سالہ جنگ کے دوران یہ امن کا نسبتاً طویل ترین عرصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد کی وجہ سے تشدد کی سطح میں بھی قابل ذکر حد تک کمی آئی ہے جو ان کے بقول کئی شامی شہریوں کی کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔
دی مستورا کا کہنا تھا کہ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ بد قسمتی سے اب بھی حما، حمص اور لاذقية سمیت کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں لڑائی جاری ہے تاہم انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی صرف انہیں علاقوں تک محدود ہے۔
اقوام متحدہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ عارضی جنگی بندی کے معاہدے کی وجہ سے اقوام متحدہ اور دوسرے امدادی اداروں کے لیے محصور علاقے میں رہنے والے ایک لاکھ سے زائد شامیوں کے لیے خوراک، ادویہ اور دوسری امدادی اشیا پہنچانا ممکن ہو سکا ہے۔
خصوصی نمائندے نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مبصرین شام کی صورت حال کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ صورت حال اب بھی نازک ہے کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ لیکن ان کے بقول اس حوالے سے پیش رفت ضرور ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اسے کامیاب بنانے کا عزم کر رکھا ہے اور بلاشبہ ہر کسی کی یہی امید ہے۔
دی مستورا نے کہا کہ 3 فروری کو فوری طور پر معطل کیے جانے والے مذاکرات اب دوبارہ 9 مارچ کو شروع ہوں گے۔ ان کے بقول چونکہ شامی حکومت اور حزب مخالف کے نمائندے براہ راست ملنے سے انکاری ہیں تو اس لیے پہلے کی طرح وہ ان مذاکرات کی ثالثی کریں گے۔