کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہم اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ سوکر گذارتے ہیں۔
دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے اور اگلی صبح تازہ دم ہوکراپنا کام کاج پھر سے شروع کرنے کے لیے رات کی پرسکون اور آرام دہ نیند بہت ضروری ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ نیند کا دورانیہ کتنا ہو۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ چھ سے آٹھ گھنٹے کی نیند کافی ہوتی ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو 12 گھنٹے مسلسل سونے کے بعد بھی یہ کہتے ہیں کہ ابھی ان کی نیند پوری نہیں ہوئی اور وہ مزید کئی گھنٹے سوسکتے ہیں۔
ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے لیے چار پانچ گھنٹوں کی نیند ہی کافی ہوتی ہے۔ اور جب وہ بستر سے اٹھتے ہیں تو ہشاش بشاش اور تروتازہ ہوتے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں کئی ایسے جرنیلوں کے نام ملتے ہیں جو گھوڑے کی پیٹھ پر محض چند لمحوں کے لیے آنکھیں موند کر اپنی نیند پوری کرلیتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچے سب سے زیادہ سوتے ہیں۔ اپنی پیدائش کے ابتدائی دنوں میں ان کی نیند کا دورانیہ 18 سے 20 گھنٹے تک ہوتاہے۔ پھر جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، نیند کا دورانیہ کم ہونے لگتا ہے جو بڑھاپے میں اکثر اوقات چار پانچ گھنٹے رہ جاتا ہے۔
ذہنی دباؤ، پریشانیاں، اور گردوپیش کا ماحول بھی نیند پر اثر اڈلتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض بیماریاں بھی نیند کو متاثر کرتی ہیں، اور سونے کے لیے خواب آور دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ لمبے عرصے تک نیند لانے والی دواؤں کااستعمال نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ پھر ان کے بغیر نیند نہیں آتی اوربعد ازاں خواب آور دوائیں بھی اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔
کچھ لوگ بہت شور شرابے میں، حتیٰ کہ کارخانوں میں مشینوں پر سر رکھ کر سوجاتے ہیں، اور کچھ لوگوں کو پھولوں کی سیج پر بھی نیند نہیں آتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند ایک فطری عمل ہے ، جو جسم کی اندورنی گھڑی کے تحت انجام پاتا ہے۔ چنانچہ روزانہ ایک خاص وقت گذرنے کے بعد ہمارا اندورنی کلاک دماغ کو ایک سگنل بھیجتا ہے اور ہمیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ سونے کا وقت ہورہا ہے اور ہمیں نیند آنے لگتی ہے۔ یہ کلاک زمین کی گردش اور اس کے مقناطیسی نظام کے مطابق کام کرتا ہے۔ چنانچہ جب ہم کسی طیارے پر طویل سفر کرکے کسی ایسے علاقے میں چلے جاتے ہیں جہاں کے وقت میں نمایاں فرق ہوتا ہے تو ہمیں بہت دنوں تک پرانے وقت کے مطابق نیند آتی رہتی ہے کیونکہ ہمارے قدرتی کلاک کو نئے نظام الاوقات میں خود کو ڈھالنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کی نیند دوسروں کی نیند اڑا دیتی ہے کیونکہ سوتے میں وہ اتنے بلند خراٹے لیتے ہیں کہ کسی اور کے لیے سونا ممکن نہیں رہتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خراٹوں پر قابو پانا ممکن ہے اور اس کا علاج موجود ہے۔
کچھ لوگ بعض اوقات کام کو نیند پر ترجیح دیتے ہیں۔ بعض طالب علم امتحان کی تیاری یا کسی اسائنمنٹ کی تکمیل کے لیے رات رات بھر جاگتے رہتے ہیں اور نیند بھگانے کے لیے دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی قیمت پر کیے جانے والے کام اکثر اوقات معیاری نہیں ہوتے۔ اور اکثر وبیشتر ان پر معمول سے کہیں زیادہ وقت اور محنت صرف کرنی پڑتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جس طرح جسم کو چاق وچوبند اور ہشاش بشاش رکھنے کے لیے نیند کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح دماغ کو بھی تازہ دم ہونے کے لیے پرسکون اور آرام دہ نیند درکار ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق جو لوگ چھٹی کا دن خوب لمبی تان کر سوتے ہیں ، اس سے اگلے دن دفتر میں ان کی کارکردگی عام دنوں کی نسبت بہتر ہوتی ہے۔ کیونکہ ہفتے میں ایک دن معمول سے زیادہ نیند دماغ مزید کو توانائی دیتی ہے۔
یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے کرونو بیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر ڈیوڈ ڈنگز کہتے ہیں صبح کے وقت ایک سے دو گھنٹے کی اضافی نیند دماغی صلاحتوں کو بہتر بنانے میں مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔
ڈاکٹر ڈنگز نے نیند کے دماغی صلاحتیوں پر اثرات کے مطالعے کے لیے 159 صحت مند بالغ افراد پر تجربات کیے، جن کی اوسط عمریں 30 سال تھیں۔
مطالعاتی جائزے کے دوران 142 رضاکاروں کو ہفتے کی دو راتوں میں ہررات دس گھنٹے سونے کے بعد باقی پانچ راتیں انہیں صبح چار بجے سے آٹھ بجے تک چار گھنٹے روزانہ نیند کے لیے ملے۔
جب کہ 17 رضاکاروں کو سونے کے لیے 10 گھنٹے دیے گئے۔ اس کے بعد سب رضاکاروں کو کمپیوٹر پر 30 منٹ دورانیے کا ایک ٹیسٹ دینے کے لیے کہا گیا۔ جو لوگ جتنا کم سوئے تھے، ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی اتنی ہی خراب تھی ۔ جب کہ سب سے اچھا رزلٹ ان رضاکاروں کا تھا جنہیں سونے کے لیے10 گھنٹے دیے گئے تھے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ نیند کی کمی سے کئی امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جن میں ہائی بلڈ پریشر، اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔