رسائی کے لنکس

'الیکشن شفاف نہ ہوئے تو ملک میں زیادہ فساد اور ہنگامے ہوں گے'


امیر جماعتِ اسلامی پاکستان سراج الحق کہتے ہیں کہ الیکشن کے حوالے سے اب بھی شکوک و شبہات برقرار ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ریاستی ادارے غیر جانب دار رہے تو ہی انتخابات کی ساکھ اچھی رہے گی۔

وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں سراج الحق کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ ایک حکومت لانے میں پوری طرح ملوث تھی، لیکن اگر اُنہوں نے ماضی سے سبق لیا ہے تو اس دفعہ وہ غیر جانب دار رہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو بھی غیر جانب دار رہنا ہو گا جو ان اداروں کی ساکھ کے لیے بھی بہتر ہے۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ 2018 میں اسٹیبلشمنٹ جس حکومت کو اقتدار میں لائی اس کی وجہ سے فوج کو آج بھی تنقید کا سامنا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان کی کئی دیگر سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے انتخابات میں مداخلت کر کے پاکستان تحریکِ انصاف کو اقتدار دلایا تھا۔

اب یہی الزامات پاکستان تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں لگا رہی ہے جن کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں لانے کے لیے انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔

لیکن چند روز قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں اس تاثر کو رد کیا گیا تھا۔

'اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار رہی تو ہی الیکشن کی ساکھ بہتر ہو گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:28 0:00

کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کسی کو سیاسی سرگرمی کے نام پر تشدد میں ملوث ہونے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ عام انتخابات کے بعد تمام شراکت داروں بشمول مقتدرہ کو بیٹھا کر ملکی مسائل سے نکلنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کرا سکیں۔

اُن کے بقول شراکت داروں کو مشترکہ لائحہ عمل پر قائل کرنا اسی صورت ممکن ہو گا جب سب کو یقین ہو کہ الیکشن صاف و شفاف ہوئے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں زیادہ فساد اور ہنگامے ہوں گے۔

'حکومت یا حزبِ اختلاف میں جانے کا فیصلہ الیکشن کے بعد کریں گے'

سراج الحق کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحاد میں شامل ہونے یا حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ الیکشن کے بعد کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں بہت سی چھوٹی بڑی جماعتیں قومی اسمبلی میں آئیں گی تو اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جماعتِ اسلامی حکومت یا حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ جماعتِ اسلامی نے ملک بھر سے 700 سے زائد امیدواروں کو میدان میں اُتارا ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جماعت کے امیدوار اتنی بڑی تعداد میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اُن کے بقول جماعتِ اسلامی نے ایک انقلابی منشور دیا ہے جو ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے ناگزیر ہے اور اسی بنیاد پر ان انتخابات میں عوام ان کی جماعت کو متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف اور یکساں مواقع کی فراہمی جماعتِ اسلامی کے منشور کے بنیادی نکات ہیں جن پر عمل کے ذریعے بہت سے ممالک نے ہر شعبے میں ترقی کی۔

'اتحاد کا تجربہ بہتر نہیں رہا'

دینی جماعتوں کے اتحاد کی صورت میں الیکشن میں نہ جانے کے سوال پر سراج الحق نے کہا کہ ماضی میں اتحاد کی صورت الیکشن میں حصہ لینے کا جماعتِ اسلامی کا تجربہ زیادہ بہتر نہیں رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جماعتِ اسلامی اسلامی جمہوری اتحاد، پاکستان قومی اتحاد اور متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) جیسے اتحادوں کا حصہ رہی ہے۔

اُن کے بقول ان اتحادوں کے نتیجے میں نشستیں جیتنے اور وزارتیں لینے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن نظام میں جو انقلابی اصلاحات لانا چاہتے ہیں وہ نہیں ہو پاتیں۔

سراج الحق نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف سب جماعتیں ماضی میں حکومت میں رہی ہیں لیکن کوئی بھی الیکشن میں اپنی کارگردگی کی بات نہیں کر رہا ہے۔

سراج الحق کہتے ہیں کہ وہ افغانستان، ایران اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے ذریعے خطے کو پرامن حل دے سکتے ہیں۔

عمران خان کو مشورہ دینے کے سوال پر سراج الحق نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کو مشورہ دینے والے بہت سے لوگ ہیں اور ایسا مشورہ جو بن مانگے دیا جائے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

فورم

XS
SM
MD
LG