رسائی کے لنکس

'تین صاف و شفاف انتخابات پاکستان کے نظام کو ٹھیک کردیں گے'


پاکستان کے سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں آئین کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ جب ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز کریں تو تنازع پیدا ہوتا ہے اور ملک میں کافی عرصے سے ایسا ہو رہا ہے۔

لاہور ادبی میلے کے دوسرے روز 'پاور فیلیئر پاکستان سرچ فار اسٹیبلٹی' کے عنوان سے منعقدہ ایک نشست میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو سیاسی کلاس سامنے آ رہی ہے وہ لوگوں کو حقیقی ترجمانی نہیں کرتی۔

لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں دسواں سالانہ لاہور ادبی میلہ جاری ہے۔ تین روزہ فیسٹیول میں 70سے زائد نشستوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ منتظمین کے مطابق ادبی میلے میں 10 ممالک کے200سے زائد مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔

اس موضوع پر ہونے والے اجلاس سے خطاب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان میں 75 برسوں میں ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس پر بات کی جاتی ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں صرف چار سیاسی لیڈر آئے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے نشست کے میزبان اور فنانشل ٹائمز جنوبی ایشیا کے بیورو چیف جان ریڈ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے سیاسی حالات پر عدلیہ، ان کے فیصلے اور اسٹیبلشمنٹ بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیات دانوں کو نااہل کیا گیا ہے۔ ملک میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ صرف کرپشن واحد مسئلہ ہے تو یہ بات درست نہیں ہے۔

\
\

ایک سوال کے جواب میں سابق وزیرِاعظم نے کہا کہ آج کل لوگ منتخب ہو کر ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔ وزرا بن جاتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ادارہ چلانا کیسے ہے۔

ان کے بقول سیاست دان لوگوں کو سیاسی نظام کا حصہ بنانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ایوان میں موجود لوگ اس وقت موجودہ سیاسی نظام میں چیلنجز کا سامنا کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔

شاہد خاقان عباسی نےکہا کہ سخت فیصلوں کے نتائج انتخابات میں آتے ہیں لیکن سیاسی حکومتیں سخت فیصلے لینے سے گھبراتی ہیں۔ ان کے بقول تین صاف شفاف انتخابات پاکستان کے نظام کو ٹھیک کردیں گے۔

سابق وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آج مہنگائی کی شرح 35 فی صد ہے۔ حکومت کے پاس قرضوں کی واپسی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ڈالر کی قیمت روزانہ کی بنیادوں پر اوپر جا رہی ہے اور ملک میں اِس وقت بہت زیادہ ڈالر نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی بھی متعلقہ وزارت کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔وہ حکومت کا حصہ تو ضرور ہے لیکن چیلنجز سے نمٹنا نہیں جانتی۔ وفاقی ملازمین مراعات کے حصول کے لیے صوبوں میں کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جن کو گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فروری میں درجہ حرارت 30ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو حالیہ سیلاب نے بہت متاثر کیا ہے۔ ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔

'بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر ہونے چاہئیں'

ادبی میلے میں نشست میں شامل معروف کاروباری شخصیت میاں منشا کا کہنا تھا کہ بطور سرمایہ کار وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔

ان کے بقول پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف سے وعدے کرتی ہے لیکن جب حالات قدرے بہتر ہو جاتے ہیں تو وعدے بھول جاتی ہے۔ سب سے پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

میاں منشا کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک مرتبہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہا کہ کوئی پاکستان کیسے آسکتا ہے؟ یہاں ویزے کے حصول اور دیگر سہولتوں کے لیے بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔

ایک سوال کے جواب میں میاں منشا نے کہا کہ پاکستان میں اداروں کو نجی شعبوں کے حوالے کر کے اُن کی کارکردگی کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اپنے اداروں میں قابل اور اہل لوگ رکھنے چاہئیں۔ کام نہ کرنے والوں کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر اداروں پر سے بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔

'لکھنے کے لیے ضروری نہیں کہ زبان پر عبور حاصل ہو'

اس سے قبل منعقدہ ایک اور نشست میں گفتگو میں شریک سن 2021 کے ادب کے نوبیل انعام یافتہ استاد اور مصنف عبدالرزاق گرنہ نے کہا کہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے لیے 18 برس کی عمر میں اپنے بھائی کے پاس برطانیہ میں پناہ گزین کے طور پر منتقل ہوئے۔

ان کے بقول انہوں نے یہ اِس لیے کیا کہ اُن کے آبائی ملک تنزانیہ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی چل رہی تھی اور وہ اپنی قابلیت کا بہتر انداز میں استعمال نہیں کر پا رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس دوران انہوں نے برطانیہ میں برتن دھونے جیسے کام بھی کیے۔

عبدالرزاق گرنہ کا کہنا تھا کہ لکھنے کے لیے ضروری نہیں کہ زبان پر عبور حاصل ہو، ضروری یہ ہے کہ جو لکھنا چاہ رہے ہیں اِس کے ساتھ لکھنے والا کا رشتہ کتنا مضبوط ہے۔

لاہور ادبی میلے کے پہلے روز معروف مصنف مستنصر حسین تارڑ نے ایک نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ وہی لکھتے ہیں جو وہ محسوس کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ آنے والا زمانہ اِس سے بھی زیادہ سخت ہو۔ پچاس برسوں کے بعد ہر چیز بدل جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG