رسائی کے لنکس

سمندری گھونگوں کا سر کٹنے کے باوجود ان کا جسم دوبارہ کیوں بن جاتا ہے؟


سمندری گھونگا
سمندری گھونگا

سائنس دانوں نے دوبارہ سے جسم پیدا کرنے کا ایک واقعہ دیکھا ہے جس میں کچھ سمندری گھونگوں کے سر کٹنے کے بعد انہوں نے دل سمیت پورا جسم پیدا کر لیا۔

’’فطرت کے اس عجیب مظہر‘‘ کو پیر کو بیالوجی کے جرنل میں پہلی بار رپورٹ کیا گیا۔ سائنس دان اس مثال کو سامنے رکھ کر انسانی بافتوں کے دوبارہ پیدا کرنے کے معمے کو حل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

جاپانی بیالوجی کی ریسرچر سایاکا میتوں نے بتایا کہ انہیں جاپانی سمندری گھونگوں پر تحقیق کرنا اس لیے پسند ہے کہ یہ ننھی، دلکش اور عجیب و غریب مخلوق ہے۔ یہ گھونگے تھوڑی دیر کے لیے پودوں کی طرح فوٹو سنتھسیز بھی کر سکتے ہیں جس میں یہ سورج کی کرنوں کی مدد سے خوراک بناتے ہیں۔

جریدے 'کرنٹ بیالوجی' کے مطابق سایاکا میتوں نے لیبارٹری میں تجربات کے دوران ایک عجیب مشاہدہ کیا۔ ایک گھونگے نے اپنا سر دھڑ سے علیحدہ کر دیا اور اس کا سر پھر بھی حرکت کرتا رہا اور زندہ رہا۔ ایسا ہی دو اور گھونگوں نے کیا۔

جرنل کے مطابق جاپان کی نارا وومن یونیورسٹی کی سمندری حیات کی پروفیسر اور پی ایچ ڈی کی طالب علم یوئیچی یوسا نے تجربے کے طور پر 16 سمندری گھونگوں کے سر دھڑ سے علیحدہ کیے۔ ان میں سے 6 نے دوبارہ سے جسم پیدا کرنا شروع کر دیا جن میں سے تین گھونگے زندہ رہ سکے۔ ان تین میں سے ایک نے یہ عمل دو بار دہرایا۔ محققین کے مطابق یہ عمل جاپان کے سمندری گھونگوں کی دو اقسام نے دوہرایا۔

دوسرے جاندار بھی اسی طرح اپنے جسم کو علیحدہ کر کے اسے دوبارہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسے چھپکلیاں جان بچانے کے لیے اپنی دم کو دھڑ سے علیحدہ کر دیتی ہیں اور کچھ عرصے بعد یہ دم دوبارہ پیدا ہو جاتی ہے۔

اس عمل کو سائنس کی زبان میں اٹانومی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یوسا کے مطابق ’’ہمارا خیال ہے کہ یہ اٹانومی کا سب سے اہم کیس ہے۔ کچھ جاندار اپنی ٹانگیں یا دم دوبارہ پیدا کر سکتے ہیں، مگر کوئی بھی جاندار ایسا نہیں دیکھا گیا کہ جو اپنا پورا دھڑ علیحدہ کرے۔‘‘

کینیڈین سمندری بیالوجی کی محقق سوسن اینتھونی نے، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھیں بتایا کہ ’’سائنس دانوں کا خیال تھا کہ ایسے سمندری گھونگے جو بہت زیادہ چھوٹی جسامت کے بھی نہیں ہوتے، اور ان کی اوسط لمبائی چھ انچ تک ہوتی ہے، وہ دل کے بغیر جو دماغ تک خون کے ذریعے اجزا پہنچاتا ہو، زندہ نہیں رہ سکتے۔‘‘

اینتھونی اور یوسا کے خیال میں جو خاصیت اس نوع کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے، وہی ایسے موقع پر زندہ رہنے میں ان کی مدد کرتی ہے۔

یوسا کے مطابق ایسے سمندری گھونگے جو خاص قسم کی کائی کھاتے ہیں، وہ فوٹو سنتھسیز یا ضیائی تالیف کے ذریعے اپنی خوراک بنا سکتے ہیں۔

اینتھونی کے مطابق سر کے دھڑ سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ ایک طرح سے پودے کی طرح اپنی خوراک بناتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے ای میل پر بات کرتے ہوئے ایو ماریا یونیورسٹی کے بیالوجی کے پروفیسر نکولس کرٹس نے کہا کہ یہ بہت حیران کن فطری امر ہے اور اس کے مالیکیولز کے جوڑ توڑ کو سمجھ کر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ انسانی خلیے اور بافتوں کو اگر نقصان پہنچے تو انہیں کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔‘‘

XS
SM
MD
LG