سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ یمن میں اپنی ’’بڑی جنگی کارروائیاں‘‘ ختم کر رہا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے یہ اعلان ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کیے جانے کے ایک سال بعد سامنا آیا ہے۔
سعودی عرب کی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد العصیری نے خبر رساں ادارے 'اے پی' کو بتایا کہ (سعودی قیادت میں قائم) اتحاد یمنی فورسز کی فضائی مدد اور ان کی فوج کی تشکیل میں مدد جاری رکھے گا۔
العصیری نے کہا کہ"اتحاد ایک مربوط و مستحکم حکومت اور مضبوط قومی فوج اور سیکورٹی فورسز کی تشکیل چاہتا ہے جو دہشت گردی کا مقابلہ کر سکے اور ملک بھر میں امن و امان کو قائم کر سکے"۔
انھوں نے کہا کہ یمنی فوجیوں کی تربیت کے لیے قلیل تعداد میں اتحادی دستے یمن میں موجود رہیں گے۔
وائٹ ہاؤس نے سعودی عرب کے بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یمن (کے بحران) کے سیاسی حل کی اشد ضرورت ہے۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے 2014 میں دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا تھا۔ انھوں نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے سربراہ کو سعودی عرب میں جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔
یمن میں لڑائی اور سعودی قیادت میں قائم اتحاد کی فضائی کارروائیوں کی وجہ سے کئی علاقے تباہ اور چھ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تعداد عام شہریوں کی بتائی جاتی ہے۔ ان میں وہ 119 افراد بھی شامل ہیں جو صنعاء کے شمال مغرب میں واقع ایک مارکیٹ پر منگل کو ہونے والی فضائی کارروائی میں ہلاک ہوئے۔
اقوم متحدہ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد سے زائد یمنی شہریوں کو خوراک اور طبی امداد کی شدید ضرورت ہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد گزشتہ سال اس لڑائی میں شامل ہوا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ اتحاد کی طرف سے کی جانے والی کارروئیوں سے تمام فریقوں کو امن کے قیام کی طرف لانے کے حوالے سے کوئی مدد نہیں مل سکی ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اتحاد پر عام شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتیں ہیں جب کہ سعودی عرب اس الزام کی تردید کرتا ہے۔