روس اور ایران کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں نے شام میں "دہشت گردوں" کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھنے کا عزم کا اعادہ کیا ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' کے مطابق ہفتہ کو روس کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل ویلری گراسیموف اور ان کے ایرانی ہم منصب میجر جنرل محمد باقری کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں شام کے فضائی اڈے پر امریکی کروز میزائل حملے کی مذمت سمیت مختلف امور زیر بحث آئے۔
اطلاعات کے مطابق دونوں عہدیداروں نے امریکی آپریشن کو "ایک آزاد ملک کے خلاف جارحیت قرار دیا۔"
ایران اور روس شام کی لڑائی میں صدر بشار الاسد کے قریبی اتحادی ہیں جب کہ امریکہ اور ترکی وہاں باغیوں کے مختلف گروپوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
شام، روس اور ایران باغیوں کے لیے "دہشت گرد" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
سات اپریل کو امریکہ نے شام کے اس فضائی اڈے پر کروز میزائل داغے تھے جہاں سے امریکی فوج کے بقول شامی طیاروں نے پرواز کرتے ہوئے خان شیخون کے علاقے میں مبینہ طور پر کیمیائی حملہ کیا تھا۔
شام اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے طیاروں نے خان شیخون کے علاقے میں باغیوں کے زیرتسلط اسلحہ کے ایک ذخیرے کو ہدف بنایا تھا جہاں مبینہ طور پر رکھے گئے کیمیائی ہتھیاروں سے خارج ہونے والی گیس علاقے میں پھیلی۔
ایران اور روس کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کی گفتگو کے بارے میں بتایا گیا کہ دونوں جنرلز نے میزائل حملے کو ایک "سوچا سمجھا پروگرام" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد شام فوج کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کی رفتار کو کم کرنا اور "دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کا حوصلہ بڑھانا" تھا۔
دونوں عہدیداروں نے "تکفیری دہشت گردوں" کے خلاف اپنی لڑائی کو جاری رکھتے ہوئے اسے تیز کرنے کا عزم بھی کیا۔ یہ اصطلاح عموماً سنی انتہا پسندوں بشمول شدت پسند تنظیم داعش کے جنگجوؤں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
امریکہ کا موقف ہے کہ شام کی حکومت کی طرف سے عوام پر مزید ظلم و جبر اور وحشیانہ حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔