پوٹن کا ناقد ''بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی'' کا مجرم قرار
ایک روسی عدالت نے منگل کے روز کریملن کے نظربند نقاد، الیکسی ناوالنی کو ''بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی'' کا مجرم قرار دیا ہے۔ اس اقدام سے صدر ولادیمیر پوٹن کے سب سے ممتاز نقاد کی قید کی سزا میں برسوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
ناوالنی پہلے ہی ماسکو کے مشرق میں واقع ایک قید خانے میں ڈھائی سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ناوالنی کے خلاف تازہ ترین فوجداری مقدمے میں 13 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے، جسے ناوالنی ''سیاسی محرکات پر مبنی'' قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔
جیل کے سیکیورٹی اہلکاروں سے بھرے کمرے میں اپنے وکلا کے ساتھ موجود ناوالنی پُر سکون دکھائی دے رہے تھے۔ جب جج نے ان کے خلاف الزامات پڑھ کر سنائے تو 45 سالہ ناوالنی عدالتی دستاویزات کو دیکھ رہے تھے۔ استغاثہ نے عدالت سے کہا کہ دھوکہ دہی اور توہین عدالت کے الزام میں انھیں 13سال کی سزا سنائی جائے اور انتہائی حفاظتی جیل میں رکھا جائے۔
ناوالنی کو گزشتہ سال اس وقت جیل بھیج دیا گیا تھا جب وہ 2020 میں سائبیریا کے دورے کے دوران زہر کے حملے کا جرمنی میں طبی علاج کروانے کے بعد روس واپس آئے تھے۔ ناوالنی نے اس حملے کا الزام پوٹن پر لگایا تھا۔
کریملن کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا کہ ناوالنی کو زہر دیا گیا تھا اور وہ اس سلسلے میں روس کے کسی بھی طور پر ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔
مارچ 15 کو عدالت کی آخری سماعت کے دوران ناوالنی نے مزاحمتی انداز اپنائے رکھا۔ انھوں نے انسٹاگرام پر تحریر کیا کہ ''جو کچھ میں نے کہا ہے اگر قید کرنے کا یہ عمل میرے انسانی حقوق کی قیمت ہے تو بیشک مجھے قبول ہے، چاہے وہ مجھے 113 برس کی سزا دے دیں، میں اپنے الفاظ اور کام سے دستبردار نہیں ہو سکتا''۔
روسی حکام نے ناوالنی اور ان کے حامیوں کو ''تخریبی عناصر'' قرار دے رکھا ہے، جو، بقول ان کے، مغرب کی ایما پر روس میں افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ناوالنی کے متعدد اتحادی ملک میں رہ کر پابندیاں اور قید کی سزائیں جھیلنے کے برعکس روس چھوڑ چکے ہیں۔
حکام نے ناوالنی کی حکومت مخالف تحریک کو ''شدت پسند'' قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی ہے۔ ان کے حامی ان کے سیاسی موقف کا اظہار کرتے ہیں اور سماجی میڈیا پر کھل کر یوکرین میں روسی فوج کی مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں۔
روسی عدالت کا فیس بک اور انسٹاگرام پر ''انتہاپسندی'' کا الزام، پابندی عائد
'میٹا' کمپنی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران پیر کو ماسکو کی ایک عدالت نے 'فیس بک' اور 'انسٹاگرام' پر بندش عائد کرنے کے احکامات دیے ہیں۔
اس سے قبل استغاثے نے عدالت سے التجا کی تھی کہ 'میٹا پلیٹفارمز انکارپوریٹڈ' کے فیس بک اور انسٹاگرام پر پابندی لگائی جائے، جو، مبینہ طور پر، ''شدت پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں''۔
وکلائے استغاثہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر الزام لگایا ہے کہ یوکرین میں فوجی کارروائی سے متعلق شائع خبروں کو سماجی میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹانے کی ان کی درخواست کو نظرانداز کیا گیا ہے، جن خبروں کو حکومتِ روس 'فیک نیوز' قرار دیتی ہے۔
'میٹا' نے بیان جاری کرنے سے انکار کیا ہے۔
تاہم، استغاثہ نے 'واٹس ایپ' کی پیغام رسانی کی سروس پر پابندی کی درخواست نہیں دی، جو میٹا ہی کی ملکیت ہے۔ روس میں پہلے ہی انسٹاگرام اور فیس بک پر پابندی عائد ہے، چونکہ روسی حکام کے بقول، ان میں روسی فوجیوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دی جاتی ہے۔
یوکرین کی شہری آبادی پر روسی افواج کے بم حملے، شدید گولہ باری
شرینیف، ماریوپول اور کیف کے شہروں اور نواحی علاقوں میں روسی افواج کے جاری بم حملوں اور شدید گولہ باری سے یوکرین کی شہری آبادی کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ اس سلسلے میں، 'میکسار ٹیکنالوجیز' نے سیٹلائٹ تصایر کی مدد سے یہ 'شو' مرتب کیا ہے۔
یوکرین کے کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ پر بچوں کی کلاسیں جاری
یوکرین میں لڑائی کے باوجود، ملک کے کچھ حصوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ زیادہ تر انٹرنیٹ پر دی جا رہی ہے، جہاں باقی دنیا کی طرح یوکرین میں بھی اسکول کے بچے کمپیوٹر پر 'لاگ ان' ہو کر کلاس میں حاضری دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں، وائس آف امریکہ کی نامہ نگار، لیزا بکالے کی رپورٹ ملاحظہ کیجیے۔