آسٹریلیا کی روس کی اہم شخصیات پر پابندیاں
آسٹریلیا کی وزارتِ خارجہ نے منگل کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ روس کے فوجی حکام سمیت دیگر اہم افراد پر مزید پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
آسٹریلیا نے ان لوگوں پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں جو کہ روس کے پروپیگنڈے یا جھوٹی معلومات پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔
ان اقدامات سے 10 افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
آسٹریلیا کی وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ افراد روس کا اسٹریٹیجک اثاثہ ہیں۔ یہ لوگ روس کے اس پروپیگنڈے کی ترویج میں مصروف ہیں جس میں ماسکو کا دعویٰ ہے کہ وہ یوکرین میں ’ڈی-نازیفیکیشن‘ یعنی نازی طرز کے اقدامات کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔
بلنکن کا بحیرہ بلقان کا دورہ: '' ہم نیٹو سرزمین کے ہر انچ کا دفاع کریں گے''
ایسے میں جب یوکرین کے خلاف روسی جارحیت جاری ہے، سابق سویت جمہوریائیں جو اب نیٹو کے رکن ممالک ہیں، ان کی سیکورٹی سے متعلق ضمانت کی یقین دہانی کرانے کے لیے، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بحر بلقان کی تین ریاستوں کا مختصر دورہ کیا ہے۔
لتھوانیا اور لیٹویا کے دورے کے بعد، وہ منگل کو ایسٹونیا پہنچے، جہاں انھوں نے اعلیٰ اہلکاروں سے ملاقات کی۔ انھوں نے یقین دلایا کہ روسی مداخلت سے بچنے کے لیے امریکی اور نیٹو کی فوجیں علاقے میں تعینات رہیں گی۔
بلنکن نے کہا کہ ''اپنی مجموعی طاقت اور بھرپور توانائی کے ساتھ ہم نیٹو سرزمین کے ہر انچ کا دفاع کریں گے''۔ انھوں نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ بلقان کی طرح اتحاد کے سارے مشرقی خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادی پہلے ہی موجود ہیں۔
ایسٹونیا کی وزیر اعظم کیجا کالاس نے بلنکن پر زور دیا کہ بالٹکس کے علاقے میں نیٹو کی ''مستقل اور بامعنی موجودگی'' یقینی بنائی جائے۔ بقول ان کے، روس ایک ''انتہائی جارح ہمسایہ ہے'' جس سے ہمیں نقصان ہی پہنچا ہے، اور یوکرین میں کارروائی پر روس کو سزا ملنی چاہیے۔
منگل ہی کے روز، بلنکن پیرس پہنچیں گے جہاں وہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں سے بات چیت کریں، جنھوں نے حال ہی میں یوکرین کا تنازع ختم کرنے کے سلسلے میں صدر پوٹن سے گفتگو کی ہے۔
عبوری جنگ بندی کے دوران، چند محصور علاقوں سے لوگ باہر نکلنے میں کامیاب
روسی فوج کے زیر قبضہ یوکرین کے کچھ علاقوں سے منگل کے روز پھنسے ہوئے لوگوں کا انخلا ممکن ہوا، جنھیں عبوری جنگ بندی کے دوران محصور علاقوں سے بسوں میں یا پیدل باہر نکلنے دیا گیا۔
مقامی حکام کے مطابق، انخلا کی اس کارروائی کے دوران سومی کے مشرقی شہر سے سولینز اس علاقے سے باہر نکلے جہاں کی ایک رہائشی سڑک روسی فضائی حملے کی زد میں آئی، جس میں کم از کم 21 شہری ہلاک ہوئے تھے۔
یوکرین کے دارالحکومت کیف کے قریب واقع ارپین کے قصبے سے لوگ بڑی تعداد میں دیگر مقامات کی جانب منتقل ہوئے۔ روس کی وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ چرنیف، خارکیف اور ماریپول میں انخلا کے چند اضافی مقامات کا تعین کیا گیا ہے۔
تقریباً دو ہفتے سے جاری روسی حملے کے دوران کئی بار ان علاقوں سے لوگ باہر نکلنا چاہتے تھے جہاں روسی فوج نے گولہ بار اور فضائی حملوں سے تباہی پھیلائی تھی، ان میں ماریپول کا کچھ علاقہ بھی شامل ہے، لیکن وہاں انخلا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کلیبا نے منگل کے روز روس پر الزام عائد کیا کہ اُس نے ماریپول میں تین لاکھ لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے، جہاں انسانی بنیادوں پر انخلا کی کارروائیوں میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ کلیبا نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ''میں سب ریاستوں سے کہتا ہوں کہ وہ روس سے مطالبہ کریں کہ ہمارے لوگوں کو جانے کی اجازت دو''
امریکہ کا روس سے تیل کی درآمد بند کرنے کا اعلان
امریکی صدر جوبائیڈن نے منگل کو روس سے تیل کی درآمد پر بندش عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''یہ روسی معیشت کی شہہ رگ ہے جسے ہدف بنایا گیا ہے''۔
بقول ان کے، اس تازہ پابندی کا مقصد یوکرین کے خلاف جارحیت پر روس کو سزا دینا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے روزویلٹ روم سے خطاب کرتے ہوئے، بائیڈن نے کہا کہ ''ہم پوٹن کی لڑائی کا حصہ نہیں بن سکتے''۔
بائیڈن نے یہ اعلان ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کی جانب سے بڑھتے ہوئے مطالبے کے پیش نظر کیا، جس بات سے بخوبی پتا چلتا ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت پر امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں روس کو سزا دینے کے معاملے پر متفق ہیں۔