روس کے صدر کا نیوکلیئر فورسز کو الرٹ رہنے کا حکم
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین تنازع پر مغربی ممالک سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب نیوکلیئر فورسز کو الرٹ رہنے کا حکم دیا ہے۔
پوٹن نے اتوار کو نیٹو اراکین کی طرف سے جارحانہ بیانات دینے کا الزام بھی لگایا ہے۔
روس اور یوکرین کی افواج کے درمیان دارالحکومت کیف پر قبضے کی جنگ چوتھے روز بھی جاری ہے۔
یوکرین کی طرف سے مغربی ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ اس کے دفاع کے اقدامات کیے جائیں۔
یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف متعدد ممالک میں مظاہرے
یوکرین پر حملے کے خلاف دنیا بھر کی طرح روس کے دارالحکومت ماسکو میں بھی احتجاج کیا گیا ہے۔
روس میں سیکیورٹی اداروں نے احتجاج میں شریک کئی افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔ ماسکو کے علاوہ کئی شہروں میں احتجاج کی اطلاعات ہیں جب کہ سیکڑوں افراد کی گرفتاری کی رپورٹس بھی سامنے آ رہی ہیں۔
مختلف ممالک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں مظاہرین یوکرین پر کیے جانے والے روس کی جارحیت کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں بارش کے باوجود سیکڑوں مظاہرین نے نعرے لگائے کہ “یوکرین موجود رہے گا” جب کہ جاپان کے شہر ٹوکیو میں مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ روس کو اپنے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کرنے پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے نکال دینا چاہیے۔
اس کے علاوہ برطانیہ، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک میں بھی یوکرین پر روسی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔
سوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت میں بھی مظاہرہ کیا گیا جس میں 20 ہزار سے زائد مظاہرین نے شرکت کی اور سٹی کونسل کی نشست پر یوکرین کا جھنڈا لہرا دیا۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں احتجاج میں ہزاروں افراد شریک تھے جن میں سے بیشتر یوکرین کے پرچم کے رنگ کے لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔
اسپین میں بھی احتجاج میں بڑی تعداد میں مظاہرین نے شرکت کی۔
صدر پوٹن نے یوکرین پر کیا سوچ کر حملہ کیا ہے؟
یوکرین پر حملے سے قبل کے دنوں میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی ذہنی کیفیت اور ہوش مندی کے بارے میں بعض موجودہ اور سابقہ مغربی عہدیداروں نے سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔
ان کی نظر میں صدر پوٹن کی سوچ اور یوکرین کے بحران پر بات کرنے کے ان کے انداز میں کچھ ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جو ان کے خیال میں روسی لیڈر کو زیادہ خطرناک بنا رہی ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے پوٹن کی تقریروں میں سے ایک تقریر کو، جس میں انہوں نے یوکرین کے علاقوں ڈونیسک اور لوہانسک کو خود مختار ریاستوں کی حیثیت سے تسلیم کیا، "عجیب و غریب اور مسخ شدہ نظریہ " قرار دیا۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اسی تقریر کو انتہائی پریشان کن خطاب کہا ہے۔
امریکہ میں فرانس کے سابق سفیر جیرارڈ اوغارڈ ا اس بھی آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ "پوٹن کی تقریر صحیح معنوں میں دماغ کو چکرا دینے والی تھی"۔
کیا چین نے اپنے ’بہترین دوست‘ روس سے منہ موڑ لیا ہے؟
چین نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں روس کے خلاف امریکہ کی قرار داد کو ماسکو کے ساتھ مل کر ویٹو کرنے سے انکار کیا ہے۔
چین نے اگرچہ اس قرارداد پر اپنا ووٹ نہیں دیا البتہ بیجنگ نے حالیہ دنوں میں ایسے بیانات دیے ہیں جو روس کے لیے انتہائی مایوس کن ہو سکتے ہیں۔
چین کے اقوامِ متحدہ میں سفیر زہانگ جون نے ایک بیان میں یوکرین کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کے احترام کی بات کی ہے جیسے اس پر روس کی جانب سے مداخلت کی گئی ہو۔
زہانگ نے اپنے بیان میں کہا کہ یوکرین کو دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان تنازع کا محاذ ہونے کے بجائے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک پل ہونا چاہیے تھا۔