روس کا یوکرین پر حملہ؛ کیا یہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہے؟
یوکرین کے وزیرِ خارجہ دمترو کولیبا نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے دارالحکومت کیف پر راکٹ برسائے جا رہے ہیں اور آخری بار اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا تھا جب جرمنی نے 1941 میں حملہ کیا تھا۔
دمترو کولیبا نے کہا کہ یوکرین نے اس وقت بھی دشمن کو شکست دی تھی اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی کریں گے۔انہوں نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ روسی صدر پوٹن کو روکا جائے، روس کو تنہا کیا جائے اور تعلقات منقطع کیے جائیں گے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے اگلے روز کیے گئے ٹوئٹ میں دمترو کولیبا نے اس دور کا حوالہ دیا جب یوکرین سوویت یونین میں شامل تھا اور 22 جون 1941 کو نازی جرمنی نے دوسری عالمی جنگ میں کیف پر حملہ کر دیا تھا۔ جرمنی کے اس اچانک حملے کے بعد ہٹلر کی فوج نے یوکرین پر قبضہ کر لیا تھا۔ جرمنی کو اسٹالن گراڈ کی جنگ کے بعد 1943 کے وسط میں یوکرین سے پسپا ہونا پڑا تھا۔
پوپ فرانسن کا یوکرین جنگ پر روس کے سفارت خانے کے سامنے اظہار تشویش
ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے پوپ فرانسس جمعے کے روز روم میں روسی سفارت خانے گئے تاکہ یوکرین کی جنگ کے بارے میں ذاتی طور پر اپنی تشویش کا اظہار کر سکیں۔
پوپ کی طرف سے جنگ کے خلاف اس قسم کے اظہار کی کوئی حالیہ نظیر نہیں ملتی۔
عام طور پر پوپ، ویٹیکن میں سفیروں اور سربراہان مملکت کا استقبال کرتے ہیں۔ پوپ فرانسس کے لیے ویٹیکن کی دیواروں کے باہر روسی سفارت خانے تک تھوڑا سا فاصلہ طے کرنا ماسکو کے یوکرین پر حملے کے بارے میں ان کے احساس کی مضبوطی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ویٹیکن کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس سے قبل کسی پوپ کی طرف سے اٹھائے گئے کسی ایسے اقدام کا علم نہیں رکھتے۔
ویٹیکن کے ترجمان میٹیو برونی نے اس بات کی تصدیق کی کہ پوپ "واضح طور پر جنگ کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرنا چاہتے تھے"۔ برونی کے مطابق پوپ فرانسس روس کے سفارت خانے کے باہر آدھے گھنٹے تک موجود رہے۔
خیال رہے کہ فرانسس نے یوکرین تنازع کو ختم کرنے کے لیے بات چیت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مسیحی پیروکاروں پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین میں امن کے لیے اگلے بدھ کو روزے اور دعا کا دن مقرر کریں۔ لیکن ابھی تک پوپ نے عوامی طور پر روس کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ممکن ہے کہ پوپ روسی آرتھوڈوکس چرچ کی، جس کے ساتھ وہ مضبوط تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مخالفت مول لینا نہیں چاہتے۔
یوکرین پر روسی حملہ ناقابل واپسی نہیں ہے، سیکرٹری جنرل گوتریس
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ایک بار پھر اپیل کی ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ بند کر دیں اور وہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔
عالمی ادارے کے ہیڈ کوارٹر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا "آنے والے دنوں کے فیصلے ہماری دنیا کو تشکیل دیں گے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کریں گے۔"
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایک ملک کی طرف سے دوسرے کے خلاف طاقت کا استعمال اقوام متحدہ کے اس چارٹر کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے جس پر تمام ریاستوں نے کار بند رہنے پر اتفاق کیا ہے۔
گوتیرس نے روس کی یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی کوغلط قرار دیا۔
انہوں نے کہا: "یہ (اقوام متحدہ کے) چارٹر کے خلاف اور ناقابل قبول ہے۔ لیکن یہ ناقابل واپسی نہیں ہے۔"
اقوام متحدہ کے رہنما نے مزید کہا کہ وہ کل رات سے صدر پوتن سے اپنی اپیل دہرا رہے ہیں کہ روس یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن بند کرے اور اپنی فوج کو روس واپس لائے۔
میانمار: ملٹری کونسل کی جانب سے یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت
میانمار کی ملٹری نے جمعرات کو یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری کے دھارے سے یکسر مختلف موقف اپنایا ہے۔ عالمی برادری نے یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی نہ صرف مذمت کی ہے، بلکہ ماسکو کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنے کا اقدام بھی کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے، میانمار کی فوجی کونسل کے ترجمان جنرل زو من تن نے فوجی حکومت کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کی حمایت کی وجوہ بیان کی ہیں۔
بقول ان کے، '' اول یہ کہ روس نے میانمار کی خودمختاری کو مستحکم کرنے میں مدد دی ہے، اس لیے، میرے خیال میں ہمارے لیے یہی اقدام درست ہے۔ دوئم یہ کہ دنیا کو بتایا جائے کہ روس ایک عالمی طاقت ہے''۔
فوجی انقلاب کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے گزشتہ سال جون میں روس کا دورہ کیا تھا، اور تب سے برما اور روس کی فوج کے مابین مضبوط مراسم قائم ہیں۔ روس اُن چند ملکوں میں سے ایک ہے جس نے یکم فروری 2021ء کے انقلاب کے بعد برما کی ملٹری کونسل کی حمایت کی تھی۔
اس فوجی بغاوت میں ایک سولین حکومت کا تختہ الٹا گیا، اور جمہوریت پنسد راہمنا آنگ سان سوچی اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
تب سے، اقوام متحدہ اور برما کے دیگر ماہرین ملٹری کونسل کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، تاہم روس اس مطالبے کو نظرانداز کرتا آ رہا ہے۔
فروری کے اس فوجی انقلاب کا جواز پیش کرتے ہوئے ملٹری حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ نومبر 2020ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی تھی جس میں سوچی کی 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی' کو بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
جب کہ بین الاقوامی اور مقامی انتخابی مبصرین نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ 2020ء کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ تھے، ماسوائے معمولی کمی بیشی کے۔
فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب سوچی کو حراست میں لیا گیا، تو ان پر متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن کا وہ سامنا کر رہی ہیں۔ انہیں غیر قانونی طور پر واکی ٹاکیز رکھنے اور کرونا وائرس کی پابندیوں کی خلاف ورزی کے لزامات پر پہلے ہی چھ سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔