روس: جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے سینکڑوں مظاہرین گرفتار
روس کی پولیس نے سینٹ پیٹرزبرگ میں احتجاج کرنے والے سینکڑوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا ہے۔
لگ بھگ ایک ہزارافراد یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے کہ اس دوران ماسک پہنے پولیس اہلکاروں نے انہیں احتجاج سے روک دیا۔ پولیس نے 100 سے زیادہ مظاہرین کو حراست میں لے لیا ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد کے مناظر
روس یوکرین تنازع میں بھارت کہاں کھڑا ہے؟
یوکرین پر روس کے حملے نے دنیا کے کئی ممالک کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اگرچہ بھارت اس معاملے میں غیر جانب دارانہ اور متوازن مؤقف اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن روس اور امریکہ دونوں سے ہی قریبی تعلقات کی وجہ سے وہ مخمصے کا شکار ہے۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریند رمودی نے جمعرات کی شب روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی اور روس اور یوکرین کے درمیان فوری طور پر تشدد بند کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے فریقین سے سفارتی بات چیت اور مذاکرات کے راستے پر لوٹنے کے لیے ٹھوس کوشش کرنے کی اپیل کی۔
بھارت میں یوکرین کے سفیر نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی تھی کہ وہ روسی صدر سے بات کریں تاہم انہوں نے بھارت کے موقف پر اپنی ناراضگی کا بھی اظہار کیا تھا۔
یوکرین میں پھنسے پاکستانی طلبہ؛ 'پہلے کہا جاتا تھا ملک میں رہیں اب کہہ رہے ہیں چلے جائیں'
'ایک بار پھر سے فضائی حملے شروع ہو گئے ہیں، ہر جانب سے سائرن کی آوازیں آ رہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہمیں اب محفوظ مقامات اور بنکرز کی جانب دوڑ کر اپنی جان بچانا ہو گی۔"
یہ کہنا ہے امیر حمزہ کا جو پاکستان کے علاقے دیر سے یوکرین میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے گئے تھے لیکن روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے اب وہ خارکیف میں محصور ہیں۔
صبح سویرے پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے کی جانے والی ٹوئٹ کے حوالے سے حمزہ کا کہنا تھا کہ طلبہ کو کہا گیا کہ وہ یوکرین کے شہر ترنوپل چلے جائیں، جہاں سے اُن کی بحفاظت واپسی کے انتظامات کیے جائیں گے۔ لیکن سفارت خانے نے یہ نہیں بتایا کہ وہاں جانا کیسے ہے؟کیوں کہ باہر تو راستے بند ہیں، کوئی ایسی ٹرانسپورٹ سروس نہیں ہے جو ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جا سکے۔
وائس آف امریکہ سے ان طلبہ کا رابطہ ٹوئٹر کے ذریعے ہوا جو پاکستانی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر گلہ کر رہے تھے کہ سینکڑوں طلبہ کے رابطہ کرنے کے باوجود سفارت خانہ جواب کیوں نہیں دے رہا؟