روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ روس کرونا وائرس کےخلاف نئی ویکسین کے استعمال کی باضابطہ اجازت دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ تاہم صدر نے اپنے دعوے سے متعلق کوئی مستند ڈیٹا پیش نہیں کیا کہ یہ ویکسین کس حد تک محفوظ ہے۔
روسی صدر نے منگل کو کابینہ کے اجلاس کے بعد سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والی تقریر میں اس پیش رفت سے آگاہ کیا۔
صدر پوٹن نے کہا کہ "میں جانتا ہوں کہ ماسکو کے گیمیلیا انسٹی ٹیوٹ کی تیار کردہ یہ ویکسین فوری اثر کرتی ہے اور اس سے کرونا کے خلاف قوت مدافعت ملتی ہے۔"
روسی صدر کا کہنا تھا کہ ویکسین کی منظوری تمام ضروری مراحل پورے کرنے کے بعد دی گئی ہے اور یہ بالکل محفوظ ہے۔
نئی ویکسین کا نام 'اسپتنک فائیو' رکھا گیا ہے جو 1957 میں اس وقت کے سوویت یونین کی جانب سے خلا میں بھیجا جانے والا پہلا مشن تھا۔
روسی حکام کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کی پیداوار آئندہ ماہ سے شروع کر دی جائے گی تاہم اس کی وسیع پیمانے پر تیاری اکتوبر سے شروع ہو گی۔
ادھر امریکہ کے وزیر صحت ایلکس آزر کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف سب سے پہلے ویکسین تیار کرنے کے دعوے کے بجائے زیادہ اہم یہ ہے کہ ایک محفوظ اور موثر ویکسین تیار کی جائے۔
تائیوان کے دورے پر موجود امریکی وزیر صحت سے جب روس کے دعوے سے متعلق پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ مسئلہ سب سے پہلے ویکسین تیار کرنے کا نہیں ہے۔اُن کے بقول ایک ایسی ویکسین تیار کی جانی چاہیے جو امریکی عوام اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے محفوط اور موثر ہو۔
ادھر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے تیار کی جانے والی ویکسین تیسرے مرحلے کی آزمائش سے نہیں گزری جس میں ویکسین کے ہزاروں افراد پر ٹرائل کے علاوہ اسے مہینوں تک جانچا جاتا ہے۔
روسی اور کچھ غیر ملکی سائنس دانوں نے بھی تیسرے مرحلے کے ٹرائل سے قبل ہی ویکسین کی منظوری پر سوال اُٹھائے ہیں۔
یہ نئی ویکسین اُن سو سے زیادہ ویکسینز میں سے ایک ہے، جسے اس وقت دنیا کے مختلف ممالک اور بائیو میڈیکل کمپنیاں تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دو کروڑ سے بڑھ چکی ہے اور اب تک یہ وائرس سات لاکھ 26 ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکا ہے۔