امریکہ کی طرف سے روس اور شام کے صدر بشارالاسد پر شام میں قومی سطح پر جنگ بندی کے احترام کے مطالبے کے بعد روس نے حلب میں 48 گھنٹوں کی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔
روس کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں بتایا کہ جنگ بندی کا اطلاق بدھ کو نصف شب سے شروع ہوگیا ہے اور اس کا مقصد مسلح تشدد میں کمی لانا اور صورتحال کو مستحکم بنانا ہے۔
قبل ازیں امریکہ نے انتباہ کیا تھا کہ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور اس نے روس اور شامی صدر بشار الاسد سے کہا ہے کہ وہ شام میں عارضی جنگ بندی کی پاسداری کریں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے روس اور شامی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ عارضی جنگ بندی پر پوری طرح عمل نہیں کر رہے ہیں جبکہ اسد کی فورسز ملک کے سب سے بڑے شہر حلب اور یونسیکو کے عالمی ورثہ کے مقامات کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کیری نے بدھ کو ناروے کے شہر اوسلو میں کہا کہ "یہ واضح ہے کہ جنگ کے خاتمے کا عمل متاثر ہورہا ہے اور یہ بہت اہم ہے کہ حقیقی عارضی جنگ بندی کو قائم کیا جائے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "روس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارا صبر لامحدود (وقت کے لیے) نہیں ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے یہ بہت واضح کر دیا ہے کہ جب تک ہم اس بات کی وضاحت نہیں کریں گے کہ اس جنگ بندی کا اطلاق کس طرح ہو گا اور اس پر کس طرح عمل دارآمد ہوتا ہے، ہم انتظار نہیں کرسکتے جبکہ اسد حلب پر حملہ جاری رکھے ہوئے ہے اور روس اس کوشش میں ان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے"۔
کیری نے کہا کہ لڑائی جاری رکھنے پر شامی حزب اختلاف کے ارکان کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
فروری میں طے ہونے والی عارضی جنگ بندی بڑی حد تک ختم ہو گئی ہے اور شام میں سیاسی عبوری انتظام کے لیے بات چیت سے متعلق بہت کم پیش رفت ہورہی ہے جس پر عمل درآمد یکم اگست کو ہونا ہے۔
شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے اب تک دو لاکھ 80 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں شامی تارکین وطن یورپ میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے۔ روس میں خانہ جنگی کا آغاز مارچ 2011 میں اس وقت ہوا جب حکومت مخالف مظاہروں کو طاقت کے زور سے دبانے کی کوشش کی گئی۔
کیری نے اوسلو فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے ناروے کا دورہ کیا۔ اس موقع پر کیری نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات کی اور ایران جوہری معاہدے اور شام کے معاملے پر ان سے بات چیت کی۔