رسائی کے لنکس

غزہ جنگ کے طریقہ کار پر اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں میں اختلافات


ایک شخص رفح میں اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر۔ فوٹو رائٹرز
ایک شخص رفح میں اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر۔ فوٹو رائٹرز

اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں کے درمیان اب اس بارے میں اختلافات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں کہ غزہ میں عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف جنگ کس طرح لڑی جائے۔

اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ایک رکن نے یرغمالوں کو رہا کرانے کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے بارے میں شک و شبہے کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ ملک کے وزیر اعظم نے حملے کی شدت کم کرنے کی امریکہ کی اپیل کو مسترد کر دیا ہے۔

اسرائیل کی جنگی کابینہ کے چار ارکان میں سے ایک، سابق فوجی سربراہ گاڈی آئیزن کوٹ نے جمعرات کو دیر گئے کہا کہ صرف جنگ بندی کے سمجھوتے کے ذریعے ہی ان درجنوں یرغمالوں کی رہائی حاصل کی جا سکتی ہے جن کو اب بھی حماس نے غزہ میں رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ان دعوؤں کو خام خیالی کہہ کر مسترد کر دیا کہ یرغمالوں کو دوسرے طریقوں سے بھی آزاد کرایا جا سکتا ہے۔

یہ اس مسئلے پر آئیزن کوٹ کا پہلا پبلک بیان تھا۔ جو اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں کے درمیان حماس کے خلاف جنگ کے طریقہ کار اور اس کی سمت کے تعین کے بارے اختلافات کی جانب تازہ ترین اشارہ ہے۔ یہ جنگ اب چوتھے ماہ میں داخل ہو چکی ہے۔

دریں اثناء علاقے میں مواصلات کا بلیک آؤٹ جمعے کو ساتویں دن میں داخل ہو گیا۔ یہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک کا طویل ترین بلیک آؤٹ ہے۔ جس سے امدادی سامان کی ترسیل میں رابطے اور امدادی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد جس میں بارہ سو کے لگ بھگ لوگ مارے گئیے جو زیادہ تر عام شہری تھے اور 240 دوسرے لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

اسرائیل نے غزہ میں جوابی کارروائی شروع کی۔ جہاں 23 لاکھ لوگ آباد تھے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ 130 یرغمال اب بھی غزہ میں ہیں، لیکن یہ باور نہیں کیا جاتا کہ وہ سب زندہ ہیں۔

اسرائیلی حملے میں جو حالیہ تاریخ کے انتہائی مہلک اور تباہ کن حملوں میں سے ایک ہے، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق کوئی 25 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور علاقے کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔

فائل فوٹو۔ رائٹرز
فائل فوٹو۔ رائٹرز

اسرائیل نے محصور علاقے میں خوراک، پانی اور ایندھن سمیت بیشتر سامان کی فراہمی بند کر رکھی ہے۔ اور بہت تھوڑی مقدار میں سامان وہاں جانے دے رہا ہے۔

امریکہ کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام پر اصرار کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم دو ریاستی حل کی مخالفت پر قائم ہیں۔

مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے جمعرات کو دیر گئے کہا کہ ایک فلسطینی ریاست کے بغیر خطے میں سیکیورٹی اور استحکام نہیں ہو سکتا۔

نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلانٹ کہہ چکے ہیں کہ جُنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کو کچل نہ دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف فوجی کارروائی کے ذریعے ہی یرغمالوں کو رہا کرایا جا سکتا ہے۔

حماس، یرغمالوں کی رہائی پر بات کرنے سے قبل جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ یرغمالوں کی رہائی کے بدلے ان ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کیا جائے جنہیں اسرائیل نے قید کر رکھا ہے۔

مبصرین نے یہ سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے کہ کیا ایسے میں نیتن یاہو کے مقاصد حقیقت پسندانہ ہیں جب کہ جنگ کی رفتار سست ہے۔ عالمی سطح پر نکتہ چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی عدالت میں اسرائیل پر نسل کشی کا الزام عائد کیا گیا ہے جس کی وہ سختی سے تردید کرتا ہے۔

نیتن یاہو کے مخالفین، ان پر بعد از جنگ کے منظر نامے پر تبادلہ خیال میں تاخیر کا الزام عائد کرتے ہیں تاکہ حکومت کی ناکامیوں کے بارے میں منڈلاتی ہوئی تحقیقات سے بچ سکیں۔ اپنے اتحاد کو برقرار رکھ سکیں اور انتخابات کو ملتوی کر سکیں۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نیتن یاہو کی مقبولیت میں، جن پر بدعنوانیوں کے الزامات میں مقدمہ چل رہا ہے، کمی ہوئی ہے۔

اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG