رسائی کے لنکس

صدر پوٹن کا روس کے اوریشنک میزائل کے ناقابلِ شکست ہونے کا دعویٰ مشکوک کیوں؟


  • صدر پوٹن نے دعویٰ کیا تھا کہ اوریشنک میزائل کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے نہیں گرایا جا سکتا۔
  • میزائل کو ناقابلِ شکست قرار دینے کے دعوؤں کے بارے میں روس ٹھوس شواہد فراہم ںہیں کر سکا۔
  • ماضی میں بھی روس اپنے ہتھیاروں کے ناقابلِ شکست ہونے کے بارے میں ایسے دعوے کر چکا ہے۔
  • روس نے اوریشنک کا استعمال صرف ایک بار اور ایسے ملک کے خلاف کیا ہے جس کے پاس ہائپر سونک میزائلوں کو نشانہ بنانے والا مغربی ایئر ڈیفنس سسٹم نہیں ہے۔

روس کی فوج نے 21 نومبر کو یوکرین کے علاقے ںیپرو میں دفاعی پیداوار سے متعلق تنصیب کے قریب درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے تجرباتی بیلسٹک میزائل اوریشنک سے حملہ کیا۔

اس کارروائی کے اگلے روز روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ اوریشنک ہائپر سونک بیلسٹک میزائل ہے جسے ہدف پر پہنچنے سے پہلے تباہ یا انٹرسیپٹ نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا ’’اس ہتھیار کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میزائل کی رفتار میک 10 کے برابر ہے جو ڈھائی سے تین کلومیٹرز فی سیکنڈ بنتی ہے۔ دنیا میں امریکہ اور یورپ کے بنائے گئے موجود فضائی دفاع کے سسٹمز اس میزائل کو انٹرسیپٹ نہیں کر سکتے۔‘‘

یہ دعویٰ ممکنہ طور پر غلط ہے۔

آواز سے پانچ گنا زیادہ تیز رفتار سے حرکت کرنے والے ہائپر سونک ہتھیار میزائل ڈیفنس کے لیے ایک منفرد چیلنج ہیں تاہم ماہرین کی آرا اور دستیاب شواہد کی روشنی میں پوٹن کا دعویٰ موجودہ حقائق کے منافی اور مبالغہ ہے۔

یوکرین کے مرکزی انٹیلی جینس ڈائریکٹوریٹ کے مطابق روس نے اوریشنک میزائل استرخان ریجن میں واقع اپنی کاپستین یار فورتھ میزائل ٹیسٹ رینج سے فائر کیا تھا۔ یوکرین کے شہر نیپرو میں گرنے سے پہلے میزائل نے لگ بھگ 15 منٹ کا سفر طے کیا۔

میزائل پر چھ جوہری وار ہیڈ تھے جن میں سے ہر ایک میں چھ سبمیونیشنز تھیں اور پرواز کے دوران یہ میک 11 تک کی رفتار تک بھی پہنچا۔ میک آواز کے مقابلے میں کسی شے کی رفتار ناپنے کی اکائی ہے۔

پینٹاگان کے مطابق اوریشنک درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا ایک نیا تجرباتی میزائل ہے جس کا ڈیزائن بین البراعظمی بیلسٹک میزائل آر ایس 26 سے اخذ کیا گیا ہے۔

یہ میزائل کتنا بڑا چیلنج ہے؟

ہائپر سونک میزائلوں کی میک فائیو سے زیادہ رفتار اور بہ آسانی پکڑ میں نہ آنے والی حرکت کی وجہ سے روایتی میزائلوں کے مقابلوں میں انہیں روکنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

ایسے میزائلوں کی انتہائی تیز رفتاری کی وجہ سے دفاعی سسٹم کے لیے جوابی کارروائی کا وقت کم سے کم ہو جاتا ہے جو موجودہ ریڈار اور سینسر ٹیکنالوجی کے لیے انتہائی سنجیدہ چیلنج ہے۔

تاہم اسے انٹرسیپٹ کرنے کو ’’ناممکن‘‘ قرار دینا میزائل ڈیفنس ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہو گا۔ امریکہ کا ٹرمینل ہائی ایلٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس (تھاڈ) اور ایجس بیلسٹک میزائل ڈیفنس جیسے سسٹم ہائپر سونک میزائلوں سمیت تیز رفتار خطرات کے مقابلے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ یہ سسٹمز فول پروف نہیں ہیں لیکن وقت کے ساتھ ارتقا پذیر خطرات کے ساتھ ساتھ ان میں بھی جدتیں آتی رہتی ہیں۔

اوسلو نیوکلیئر پراجیکٹ میں پی ایچ ڈی کی فیلو فیبین ہوفمین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے پاس موجود میزائل شکن سسٹم اوریشنک کو گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سی این این سے بات کرتے ہوئے 22 نومبر کو ہوفمین نے کہا تھا ’’ایجس یا ایجس اشور تک ایس ایم 3 سسٹمز، اسی طرح ایرو 3 اور تھاڈ جیسے سسٹم، غالب امکان یہی ہے کہ اس خطرے سے نمٹ سکتے ہیں۔‘‘

مقابلے کے لیے اقدامات

امریکہ سمیت متعدد ملاقات نے ایسی ٹیکنالوجیز پر کام کیا ہے جس میں خاص طور پر ہائپر سونک ہتھیاروں کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ان میں سے بعض اہم اقدامات یہ ہیں:

  • نارتھروپ گرومین اور ریتھن نے باہمی اشتراک سے گلڈ فیز انٹرسیپٹر تیار کیا ہے۔ یہ کمپنیاں ہائپر سونک میزائل کو گرانے کے لیے یو ایس میزائل ڈیفنس ایجنسی کے ساتھ معاہدے کے تحت کام کر رہی ہیں۔
  • ہائپر سونک ہتھیاروں کا پتا لگانے کے لیے لونگ رینج ڈسکریمینیشن ریڈار سسٹم تیار کیا گیا ہے۔
  • لیزر بیسڈ سسٹم پر ڈائریکٹڈ انرجی ہتھیاروں کو ہائپر سونک ہتھیاروں کے ممکنہ توڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

آزمائش اور شواہد

پوٹن کے دعوؤں کے باوجود، روس نے اس بات کے حتمی شواہد فراہم نہیں کیے ہیں کہ اوریشنک میزائل میزائلوں کا باقاعدہ استعمال شروع کردیا گیا ہے یا اس کا تجربہ ایسے حالات میں کیا گیا ہے جو مغربی میزائل ڈیفنس سسٹم سے مماثلت رکھنے کا ماحول رکھتے ہوں۔

روس نے اوریشنک کا استعمال صرف ایک بار اور ایسے ملک کے خلاف کیا ہے جس کے پاس ہائپر سونک میزائلوں کو نشانہ بنانے والا مغربی ایئر ڈیفنس سسٹم نہیں ہے۔

روس کی جوہری پالیسی اور اسٹریٹجک ہتھیاروں کے ماہر میکسم اسٹراچک کے مطابق ماسکو اپنی جنگی صلاحیتوں کے بارے میں مبالغہ کرتا رہا ہے اور تجربات یا محاذ پر اسے گرانے کی کسی کوشش کا نتیجہ سامنے آنے تک یہ بے بنیاد دعوے ہیں۔

ماض میں روسی ساختہ ہائپر سونک ہتھیار کے تجربات ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر روس کی تیار کردہ ایونگارڈ گلائیڈ وہیکل کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا لیکن ان کے باقاعدہ استعمال اور مؤثر ہونے کے بارے میں شبہات پائے جاتے ہیں۔

دوسری جانب امریکہ اور اس کے اتحادی کنٹرولڈ انوائرنمنٹ میں تیزی سے حرکت کرنے والے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا چکے ہیں۔

مثال کے طور پر تھاڈ اور ایجس سسٹمز نے درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل مار گرانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے البتہ ہائپرسونک ٹارگٹس کے خلاف ان کے نتائج ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہے۔

دیگر میزائلوں کے بارے میں روس کے دعوے

پوٹن کا بیان ان کی جانب سے روس کی جنگی صلاحیتوں کی برتری اور بین الاقوامی سطح پر اپنی دھاک بٹھانے کے طریقہ کار کا تسلسل ہے۔ ماضی میں انہوں نے دیگر ہتھیاروں کے بارے میں بھی ایسے دعوے کیے تھے کہ انہیں مار گرانا ناممکن ہے۔ انہوں نے سرمٹ نامی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل اور زرکان ہائپر سونک میزائل کے بارے میں بھی یہی دعویٰ کیا تھا۔

زرکان میزائل کی رفتار میک 9 تک پہنچ سکتی ہے اور یہ تیز ترین ہائپر سونک ہتھیاروں میں شامل ہے۔ لیکن رواں برس 25 مارچ کو جب روس نے یوکرین پر دو زرکان میزائل داغے تھے تو یوکرینی ذرائع کے مطابق فضائی دفاعی نظام نے ان دونوں کو مار گرایا تھا۔

یوکرین نے بعدازاں گرائے گئے میزائل کی باقیات کی تصاویر بھی جاری کی تھیں۔ یوکرینی ایئر فورس کے ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ اس میزائل کو پیٹریاٹ اور سیمپ ٹی جیسے سسٹمز سے تباہ کیا گیا تھا۔

روس کی دفاعی صلاحیتوں کے ماہر ٹام شارپ نے تین اپریل کو روزنامہ ٹیلی گراف میں لکھا تھا ’’اچھی خبر یہ ہے کہ میزائلوں کے معاملے میں خاص طور پر روس کی بات کی جائے تو ’دعوے‘ اور ’حقیقت‘ بہت مختلف ہوتے ہیں۔ کیا زرکان ناقابلِ شکست ہے، اس کا جواب نہیں ہے۔ یہ سیکھنا مشکل ہے کہ اس کا توڑ کیسے کیا جائے؟ اس کا جواب ہے، ہاں۔‘‘

فورم

XS
SM
MD
LG