اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ عراق کے صوبے بصرہ میں بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث مظاہرے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور حکومت لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بصرہ میں رہنے والے عراقیوں کو بہت سی شکایات ہیں۔ وہ بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں کے فقدان اور آلودگی اور روزگار کی عدم دستیابی کے خلاف جولائی سے احتجاج کر ر ہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے اس پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ بصرہ میں حالیہ ہفتوں کے دوران مظاہرے شدت اختیار کر تے آئے ہیں اور بعض اوقات ان مظاہروں میں ہلاکتیں بھی واقع ہوئی ہیں۔ عراق کی وزارت صحت نے اس ماہ کے پہلے ہفتے کے دوران مظاہروں میں 11 افراد کی موت کی تصدیق کی تھی۔
انسانی حقوق کیلئے دفتر کی ترجمان روینہ شمداسانی کا کہنا ہے کہ 8 جولائی کو شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک کل 20 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اُنہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس تشدد کا ذمہ دار کون ہے۔ تاہم بعض صورتوں میں سیکیورٹی فورسز نے طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا ہے۔ ترجمان کا مز ید کہنا تھا کہ کچھ نامعلوم حملہ آور بھی نقصان پہنچانے کے ارادے سے مظاہرین کی صفحوں میں شامل ہو گئے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ تشدد میں کئی فریق شامل ہیں اور ہم اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس بارے میں آزادانہ اور قابل مواخذہ تحقیات کی جائے۔ سیکیورٹی فورسز کے بھی کم سے کم 52 اہلکار زخمی ہو چکے ہیں۔
شمداشانی کہتی ہیں کہ حکومت کو چاہئیے کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کرے اور اگر ان ہلاکتوں میں سیکیورٹی فورسز کا کوئی کردار ہے تو اُن کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئیے۔
انسانی حقوق کیلئے اقوام متحدہ کے دفتر نے زور دیا ہے کہ عراقی ریاست اپنے عوام کی پریشانیاں دور کرے۔ اس کا کہنا ہے کہ لوگوں کے اقتصادی اور سماجی حقوق کا احترام کیا جانا چاہئیے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جانا چاہئیے۔