کراچی کے لئے جمعہ کی شام خاصی ہنگامہ خیز ثابت ہوئی۔ ایک جانب سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے مقدمے میں ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف شہر کی مرکزی شاہراہوں اور چوراہوں پر دینی جماعتوں نے احتجاج کیا تو دوسری جانب ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین سے بھی اظہار یکجہتی کیلئے شہر کے 18 مقامات پر پرامن احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔
دوسری جانب کچھ مشتعل افراد کی جانب سے شہر کی بڑی مارکٹیوں کو جبری بند کرا دیا گیا۔ ادھر میڈیا دفاتر اور صحافیوں پر بھی حملے کئے گئے اور توڑ پھوڑ کی گئی جس سے شہر میں جگہ جگہ بدترین ٹریفک جام ہوگیا۔ شہریوں کو گھر پہنچنے میں شدید پریشانی اٹھانا پڑی۔
تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے حساس علاقوں میں 200 سیکورٹی اہلکار تعینات کردئیے جبکہ پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کا گشت بڑھا دیا گیا۔
جمعہ کو ایم کیو ایم کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں کارکنوں سے پارٹی سربراہ الطاف حسین سے اظہار یکجہتی کے لئے احتجاجی مظاہرے کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ہدایات کے مطابق شہر کے 18 مقامات پر شام چار بجے سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔
لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل، گلستان جوہر، لائنزایریا، ڈیفنس، گلشن اقبال، سرجانی، قصبہ علی گڑھ، اورنگی ٹاوٴن اور فائیور اسٹار چورنگی ناظم آباد سمیت مختلف علاقوں میں مرد، خواتین کارکنوں اور بزرگ افراد نے سڑک کے دونوں جانب کھڑے ہوکر احتجاج کیا۔ ان افراد نے اپنے ہاتھوں میں الطاف حسین کی تصاویر، پارٹی پرچم اور مختلف بینرز اٹھا رکھے تھے جن میں اظہار یکجہتی کے نعرے درج تھے۔ اس موقع پر کارکنوں نے پارٹی اور اس کے سربراہ کے حق میں با آواز بلند نعرے بھی لگائے۔
ادھر شہر قائد کی اہم شاہراہوں اور نمائش چورنگی سمیت مختلف چوراہوں پر جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کی جانب سے ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف مظاہرے ہوئے۔
اس دوران کچھ نامعلوم مشتعل مظاہرین نے توڑ پھوڑ شروع کردی۔ صحافیوں، میڈیا ہاوٴسز اور ان کے زیر استعمال گاڑیوں پر حملے کئے، پولیس پر تشدد کیا اور گل پلازہ، لائٹ ہاوس، بولٹن مارکیٹ و موبائل مارکیٹ صدر کو جبری بند کرا دیا۔
اس دوران جامع کلاتھ مارکیٹ سے نمائش تک دینی تنظیم سنی تحریک نے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی جبکہ شہر کے وسط میں واقع نجی ٹی وی چینل ’آج‘ کے دفتر پر بھی کچھ نامعلوم افراد کے حملے کی اطلاعات موصول ہوئیں ہیں۔
حملے میں شریک افراد دفاتر نے رکاوٹ کی غرض سے بنائی گئیں دیواریں عبور کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران پتھراوٴ بھی کیا گیا جبکہ ایک اور نجی ٹی وی چینل ’ایکسپریس‘ کی ڈی ایس این جی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسی اثناء میں ایم اے جناح روڈ پر مشتعل افراد نے ٹائروں کو آگ لگادی اور الیکٹرانکس مارکیٹ صدر میں توڑ پھوڑ شروع کر دی جس کے سبب دیکھتے ہی دیکھتے تمام مارکیٹ بند ہوگئی۔
توڑ پھوڑ اور جلاوٴ گھیراوٴ کی اطلاع پر پولیس کی بھاری نفری طلب کی گئی۔ تاہم، مشتعل مظاہرین پولیس پر بھی تشددکرنے سے باز نہیں آئے۔
صحافیوں کی تنظیم ’ایڈیٹرز فار سیفٹی‘ نے میڈیا ہاوٴس پر ہونے والے حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ کراچی کے ساتھ ساتھ لاہور اور حیدرآباد میں بھی ٹی وی اسٹیشنز کو نقصان پہنچا ہے جبکہ پریس کلب اور صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تنظیم نے حملے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر داخلہ و صوبائی حکومت سے میڈیا ٹیموں اور میڈیا ہاوٴسز کی سیکورٹی مزید سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے لاہور اور کراچی میں ’آج‘ ٹی وی پر ہونے والے حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ایک بیان میں وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ حکومت میڈیا کی آزادی پر مکمل یقین رکھتی ہے اور ایسے حملوں کی سخت مذمت کرتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق مظاہرین ممتاز قادری کے جنازے کی کوریج نہ دکھائے جانے پر میڈیا سے خائف ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ دیگر اہم واقعات کی طرح اس سانحے کی بھی بھرپور کوریج ہونی چاہئے تھی۔