رسائی کے لنکس

مہاراشٹرا کی حکومت گرانے اور بچانے کا کھیل جاری


مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے ، وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ۔ فائل فوٹو
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے ، وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ۔ فائل فوٹو

بھارت کی ایک اہم ریاست مہاراشٹرا کی حکومت کی کشتی سیاسی بحران کے بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مخلوط حکومت کی سب سے بڑی جماعت شیو سینا کے ایک باغی رہنما نے ہی اسے اس حال کو پہنچایا ہے۔

اس حکومت میں شیو سینا کے علاوہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اور کانگریس بھی شامل ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر شیو سینا کے صدر اودھو ٹھاکرے جو کہ شیو سینا کے بانی بال ٹھاکرے کے فرزند ہیں، فائز ہیں۔

باغی رہنما اکناتھ شنڈے تقریباً 40 ارکان اسمبلی کے ہمراہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اقتدار والی ریاست آسام کے دارالحکومت گوہاٹی کے ایک ہوٹل میں بند ہیں۔

یہ بحران گزشتہ دنوں ریاستی کونسل کے انتخاب میں شیو سینا کے بعض ارکان کی کراس ووٹنگ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ کونسل کے انتخاب میں شیو سینا کے چھ ارکان کی کامیابی یقینی تھی او ربی جے پی کو چار نشستیں ملنے کا امکان تھا۔ لیکن دونوں کو پانچ پانچ نشستیں ملیں۔

اس کے بعد اکناتھ شنڈے کئی روز تک لاپتہ رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بی جے پی اقتدار والی ریاست گجرات کے شہر سورت میں شیو سینا کے کچھ ارکان کے ہمراہ موجود ہیں۔ لیکن اس کے بعد ہی انھوں نے گجرات چھوڑ دیا اور آسام کے دارالحکومت گوہاٹی چلے گئے۔

حالانکہ اس سے چند روز قبل ہی وہ وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے کے فرزند اور ریاستی وزیر آدتیہ ٹھاکرے کے ہمراہ رام مندر کا درشن کرنے ایودھیا گئے ہوئے تھے۔ وہ پارٹی کی دیگر سرگرمیوں میں بھی شامل رہے۔ لیکن کسی کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اندر ہی اندر بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کو اس بحران میں مبتلا کرنے میں بی جے پی کا ہاتھ ہے۔ جب کہ بی جے پی اس سے انکار کرتی ہے اور اسے شیو سینا کا اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے۔

لیکن ایک ناتھ شنڈے کا یہ بیان کہ ملک کی سب سے بڑی قومی جماعت نے ان کے اس ا قدام کی ستائش کی ہے، اس سیاسی اتھل پتھل میں بی جے پی کی شمولیت کے شبہہ کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سورت کے ایئر پورٹ پر اور گوہاٹی کے ہوٹل میں بی جے پی رہنماؤں کو بھی دیکھا گیا ہے۔ البتہ دو اراکین کسی طرح ہوٹل سے نکل کر ممبئی آگئے اور اوھو ٹھاکرے سے مل گئے۔

شیو سینا، این سی پی اور کانگریس پر مشتمل اس حکومت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرنے والے این سی پی کے رہنما شرد پوار نے بھی پہلے اسے شیو سینا کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا لیکن اب مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ سرگرم ہو گئے ہیں اور انھیں اس بات کا یقین ہے کہ حکومت بچ جائے گی۔

شرد پوار کی سرگرمی کا اندازہ اس سے لگایا جا رہا ہے کہ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نرہری زروال نے جو کہ این سی پی سے تعلق رکھتے ہیں، شیو سینا کی اس تجویز کو منظور کر لیا کہ ایوان میں اکناتھ شنڈے کی جگہ پر اجے چودھری کو گروپ لیڈر تسلیم کیا جائے۔

یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ گروپ لیڈر ہی وھپ کا تقرر کرتا ہے اور وھپ کے حکم کے مطابق پارٹی ارکان ایوان کے اندر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ زروال نے شیو سینا کی یہ تجویز بھی منظور کر لی کہ وہ شنڈے سمیت 12 ارکان کو نااہل قرار دے دیں۔

شرد پوار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کے مستقبل کا فیصلہ ایوان میں ہوگا۔ اگر حکومت اپنی اکثریت ثابت کر لے گی تو وہ بچ جائے گی۔ اگر 12 ارکان نااہل قرار دے دیے جاتے ہیں اور وہ تحریک عدم اعتماد پر اپنا ووٹ نہیں ڈال پاتے تو حکومت کے بچنے کے امکانات قوی ہو جائیں گے۔

اس کے علاوہ بھارت میں اپنی پارٹی چھوڑنے یا دوسری جماعت میں جانے یا الگ پارٹی بنانے کے سلسلے میں ایک قانون ہے جسے دل بدلی مخالف قانون کہا جاتا ہے۔ اگر اکناتھ شنڈے شیو سینا کے 57 ارکان میں سے 37 ارکان کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں تو وہ اس قانون کی گرفت میں آنے سے بچ جائیں گے ورنہ تمام باغی ارکان کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ شنڈے کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 40 ارکان اسمبلی ہیں۔

ایک ناتھ شنڈے کا کہنا ہے کہ وہ حکومت گرانا نہیں چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ شیو سینا این سی پی اور کانگریس کے ساتھ کیے جانے والے اس غیر فطری اتحاد سے نکل جائے اور بی جے پی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ این سی پی اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے شیو سینا ہندوتو ا کے اس نظریے سے بھٹک گئی ہے جو پارٹی کے بانی بال ٹھاکرے کا نظریہ تھا۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ این سی پی اور کانگریس ریاست میں شیو سینا کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے نے ہندوتوا کے نظریے کو خیرباد کہنے کے الزام کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی بال ٹھاکرے کے ہندوتوا کے نظریے پر قائم ہیں۔

خیال رہے کہ شیو سینا بھی اسی ہندوتوا کے نظریے پر چلتی رہی ہے جس پر بی جے پی چل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام پر بال ٹھاکرے نے بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا کہ یہ کام ان کے شیو سینکوں نے کیا ہے۔ بال ٹھاکرے مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو ہرا سانپ کہتے تھے۔

اکناتھ شنڈے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بال ٹھاکرے کے ہندوتوا کے نظریے پر قائم ہیں۔ جب کہ اودھو ٹھاکرے نے ان سے کہا ہے کہ وہ بال ٹھاکرے کا نام لینا بند کر دیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ان کو شیو سینا کا انتخابی نشان اور ٹکٹ نہ ملتا تو وہ دو بار الیکشن میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

باغی ارکان کا الزام ہے کہ اودھو ٹھاکرے کا کام کرنے کا طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان لوگوں کو پارٹی میں کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کسی سے ملتے نہیں ہیں۔

مبصرین بھی ان الزامات کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اوھو ٹھاکرے ایک سیاست دان کی طرح نہیں بلکہ بیوروکریٹ کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیورو کریسی پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہاں تک کہ خفیہ فائلوں کی تفصیلات وزیر اعلیٰ کی میز پر پہنچنے سے قبل سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی رہنما دیوندر پھڑنویس کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔

شیو سینا کا قیام ریاستی قوم پرستی کے بطن سے ہوا تھا۔ بال ٹھاکرے نے مہاراشٹرا کو مراٹھیوں کی سرزمین کے نعرے کے ساتھ غیر مراٹھیوں کے خلاف مہم چلائی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہاں غیر مراٹھیوں کے لیے کوئی گنجالش نہیں ہے۔ لیکن پھر ان کی سیاست ہندوتو ا نظریے کی طرف مڑ گئی۔

بال ٹھاکرے کی زندگی ہی میں شیو سینا ایک سیاسی قوت بن کر ابھری تھی۔ اس نے انتخابات کے نتیجے میں بلدیاتی ادارے پر قبضہ کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے بی جے پی کے ساتھ مل کر اسمبلی انتخاب لڑا اور سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اس نے بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کی۔

بعد کے انتخابات میں بی جے پی اپنی عوامی بنیاد بڑھاتی گئی جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ وہ بڑی پارٹی اور شیو سینا چھوٹی حلیف پارٹی بن گئی۔ شیو سینا کو اپنا وجود خطرے میں محسوس ہونے لگا۔

سال 2019 کے اسمبلی انتخابات میں شیو سینا کو 56 اور بی جے پی کو 106 نشستیں ملیں۔ لیکن جب حکومت سازی کا موقع آیا تو اودھو ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ کا منصب طلب کیا اور دعویٰ کیا کہ الیکشن سے قبل بی جے پی کے ساتھ اس کا معاہدہ ہوا تھا۔ حالانکہ بی جے پی نے ایسے کسی معاہدے سے انکار کیا۔

ادھر گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے این سی پی سے الگ ہونے والے رکن اسمبلی اور شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار کو لے کر بی جے پی کی حکومت بنوا دی اور دیویندر پھڑنویس کو وزیر اعلیٰ کا حلف دلا دیا۔ لیکن یہ کام انتہائی عجلت میں اور ڈھلتی رات میں کیا گیا۔ جس کی سیاسی حلقوں میں مذمت کی گئی۔

لیکن اس حکومت کو بہت کم زندگی ملی۔ شرد پوار اجیت پوار کو سمجھا بجھا کر پارٹی میں واپس لانے میں کامیاب ہو گئے اور وہ حکومت گر گئی۔

تقریباً ایک ماہ تک ریاست میں حکومت قائم نہیں ہو سکی۔ اسی درمیان شرد پوار سرگرم ہوئے اور انھوں نے شیو سینا کو این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کرنے پر راضی کر لیا۔ اودھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بات بی جے پی سے ہضم نہیں ہوئی اور وہ اسی وقت سے اس حکومت کو گرانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔حالانکہ وہ اس الزام کی تردید کرتی ہے لیکن سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے بی جے پی کے تردیدی بیان پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ شیو سینا کے دو رہنماؤں کو جیل اور شیو سینا رہنماؤں کی سی بی آئی اور ای ڈی کی جانب سے جانچ کے واقعات کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

بی جے پی رہنما اور مرکزی وزیر پیوش گوئل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد والی حکومت ہے اور اسے گرنا ہی ہے۔

اسی درمیان اودھو ٹھاکرے وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش چھوڑ کر اپنے مکان میں منتقل ہو گئے ہیں۔ اب ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سیاسی چالیں چلی جا رہی ہیں۔

شیو سینا کے سینئر رہنما سنجے راوت کے اس بیان کے بعد کہ اگر ضرورت پڑی تو شیو سینک سڑکوں پر بھی آسکتے ہیں، پولیس ہائی الرٹ پر ہے۔ تمام پولیس اسٹیشنوں کو کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کو کہا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG