آئینی ترمیم سے متعلق حتمی فیصلہ نہیں کیا: فاروق ستار
حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہے آئینی ترمیم سے متعلق حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
انہوں ںے کہا کہ ایسے ماحول میں کی جانے والی ترامیم پسندیدہ نہیں ہوتیں۔ لیکن معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم کی حمایت کی جاسکتی ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم پر مولانا فضل الرحمان کے اختلافات ثانوی نوعیت کے ہیں۔
عمران خان نے اداروں کو سیاست میں ملوث کیا: احسن اقبال
وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اداروں کو سیاسی میں ملوث کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت بچانے کے لیے سپریم کورٹ نے آئین کی غلط تشریح کی ۔ ان کے بقول حمزہ شہباز کی حکومت گرانے کے لیے سپریم کورٹ نے آئین بدل دیا۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے صرف انتشار پھیلایا اور آج ان کے لوگ قانون و انصاف کی بات کرتے ہیں۔
نمبر گیم کے لیے جوڑ توڑ اور سیاسی رابطے تیز
حکومت کا جوڈیشل پیکج (آئینی ترمیمی بل) اتوار کو پارلیمنٹ میں پیش ہونے کا امکان ہے جس کے لیے رات گئے تک سیاسی رابطے جاری رہے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا وقت اچانک تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اتوار کو دن ساڑھے 11 بجے طلب کیے گئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کا وقت بھی تبدیل کر دیا گیا ہے اب قومی اسمبلی کا اجلاس چار بجے جب کہ سینیٹ کا اجلاس شام سات بجے کر دیا گیا ہے۔
دونوں ایوانوں کے اجلاس کا علیحدہ علیحدہ ایجنڈا جاری کیا گیا ہے ۔ جس میں آئینی ترمیمی بل پیش کرنے اور اس پر کارروائی شامل نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت دونوں ایوانوں کے اجلاس میں رولز معطل کر کے آئینی ترمیمی بل پیش کر کے منظور کرا سکتی ہے۔
حکومت کو آئینی ترمیمی بل کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل ہفتے کے اجلاس میں ممکنہ طور پر عدلیہ سے متعلق ترامیم کا بل پیش ہونے کی خبریں گردش میں تھیں۔
پارلیمان سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت درکار
آئینی ماہرین کے مطابق آئینی ترمیم کا بل دونوں ایوانوں سے علیحدہ علیحدہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرانا لازم ہوتا ہے۔ حکومت کو سینیٹ میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار ہیں۔
سینیٹ میں حکمران اتحاد کے اراکین کی مجموعی تعداد 55 ہے۔ جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اور ایم کیو ایم کے 3 ارکان شامل ہیں۔
سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو مزید 10 ووٹ درکار ہیں۔ اگر حکومت اے این پی کے تین، نیشنل پارٹی کے ایک اور مسلم لیگ ق کے ایک رکن کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائے تو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے باقی پانج ارکان درکار ہوں گے۔
حکومت جمعیت علمائے اسلام ف کے پانچ ارکان کی حمایت حاصل کر کے ایوان میں درکار ووٹ پورے کر سکتی ہے۔ مگر جے یو آئی نے تاحال اپنے ووٹ آئینی ترامیم کے حق میں ڈالنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
اسی طرح قومی اسمبلی میں اس وقت حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے 111، پیپلز پارٹی کے 69، ایم کیو ایم 22، استحکامِ پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے چار، چار جب کہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔ سب ملا کر یہ تعداد 213 بنتی ہے۔ اس طرح حکومت کو قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے مزید 12 درکار ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر جے یو آئی کی حمایت حاصل کر بھی لی جائے تو پھر بھی حکومت دو تہائی کے لیے درکار عدد پورے نہیں کر سکتی۔
قومی اسمبلی میں جے یو آئی ارکان کی تعداد 8 ہے۔ اس کی حمایت حاصل کرنے کے بعد بھی حکومت کو مزید چار ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
اپوزیشن نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے 80، پی ٹی آئی حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے آٹھ، بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک ایک رکن ہیں۔ دوتہائی اکثریت پورے کرنے کے لیے حکومت کو چار آزاد ارکان سے حمایت حاصل کرنا ہوگی جو پی ٹی آئی کی حمایت سے جیت کر آئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق آزاد ارکان سے حمایت حاصل کرنے سے حکومت پر سیاسی طور پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگ سکتا ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی جا سکتا ہے۔