پارلیمان سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت درکار
آئینی ماہرین کے مطابق آئینی ترمیم کا بل دونوں ایوانوں سے علیحدہ علیحدہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرانا لازم ہوتا ہے۔ حکومت کو سینیٹ میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار ہیں۔
سینیٹ میں حکمران اتحاد کے اراکین کی مجموعی تعداد 55 ہے۔ جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اور ایم کیو ایم کے 3 ارکان شامل ہیں۔
سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو مزید 10 ووٹ درکار ہیں۔ اگر حکومت اے این پی کے تین، نیشنل پارٹی کے ایک اور مسلم لیگ ق کے ایک رکن کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائے تو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے باقی پانج ارکان درکار ہوں گے۔
حکومت جمعیت علمائے اسلام ف کے پانچ ارکان کی حمایت حاصل کر کے ایوان میں درکار ووٹ پورے کر سکتی ہے۔ مگر جے یو آئی نے تاحال اپنے ووٹ آئینی ترامیم کے حق میں ڈالنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
اسی طرح قومی اسمبلی میں اس وقت حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے 111، پیپلز پارٹی کے 69، ایم کیو ایم 22، استحکامِ پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے چار، چار جب کہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔ سب ملا کر یہ تعداد 213 بنتی ہے۔ اس طرح حکومت کو قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے مزید 12 درکار ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر جے یو آئی کی حمایت حاصل کر بھی لی جائے تو پھر بھی حکومت دو تہائی کے لیے درکار عدد پورے نہیں کر سکتی۔
قومی اسمبلی میں جے یو آئی ارکان کی تعداد 8 ہے۔ اس کی حمایت حاصل کرنے کے بعد بھی حکومت کو مزید چار ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
اپوزیشن نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے 80، پی ٹی آئی حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے آٹھ، بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک ایک رکن ہیں۔ دوتہائی اکثریت پورے کرنے کے لیے حکومت کو چار آزاد ارکان سے حمایت حاصل کرنا ہوگی جو پی ٹی آئی کی حمایت سے جیت کر آئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق آزاد ارکان سے حمایت حاصل کرنے سے حکومت پر سیاسی طور پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگ سکتا ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی جا سکتا ہے۔
عمران خان کے سوشل میڈیا بیان پر ایوان میں ہنگامہ
پاکستان کے ایوانِ زیریں قومی اسمبلی کے ہفتے کو اجلاس کے دوران سابق وزیرِ اعظم اور تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کا حالیہ بیان حکومتی اراکین کی تقاریر کا موضوع رہا۔
سرکاری ٹی وی نے قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب کی تقریر بھی نشر کرنے سے روک دی۔
ایوان میں سوال و جواب کی اجازت نہیں تھی۔
جب اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اپنی تقریر شروع کی اور بلاول بھٹو زارداری کے خطاب پر ردِ عمل دینا شروع کیا تو سرکاری ٹیلی ویژن ’پی ٹی وی‘ نے براہِ راست نشریات روک دیں۔
عمران خان کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جمعرات کو قوم کے نام جاری پیغام میں کہا گیا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ فردِ واحد اپنی طاقت بچانے کے لیے پورے ملک کو داؤ پر لگا دے۔