فوج کی حمایت یافتہ یا سربراہی میں حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے: طلبہ رہنما
بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کے لیے مشاورت کا عمل شروع ہو گیا ہے جب کہ طلبہ رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ نوبیل انعام یافتہ معاشیات کے ماہر محمد یونس کی نگرانی میں عبوری حکومت تشکیل دی جائے۔
مظاہروں کی قیادت کرنے والے طلبہ رہنما ناہید اسلام نے منگل کو ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ طلبہ کی جانب سے تجویز کردہ عبوری حکومت کے علاوہ کوئی حکومت قبول نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے بعض دیگر اسٹوڈنٹس رہنماؤں کے ہمراہ فیس بک ویڈیو میں کہا کہ وہ فوج کی حمایت یافتہ یا فوج کی سربراہی میں کسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔
ناہید اسلام نے کہا کہ انہوں نے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس سے بات کی ہے اور انہوں نے طلبہ کی دعوت پر عبوری سیٹ اپ میں شمولیت پر رضا مندی ظاہر کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق محمد یونس نے فوری طور پر طلبہ کی درخواست پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
چراسی سالہ محمد یونس گرامین بینک کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں جنہیں بنگلہ دیش میں غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں 2006 میں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔
محمد یونس نے دیہی علاقوں کے پسماندہ افراد کو غربت سے نکالنے کے لیے انہیں چھوٹے چھوٹے قرضوں کا پروگرام شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں لاکھوں بنگلہ دیشی افراد غربت سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
بنگلہ دیش میں اموات کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے مکمل اور شفاف تحقیقات ضروری ہیں: امریکہ
امریکہ نے پیر کو بنگلہ دیش میں مظاہرین کے خلاف مزید کریک ڈاؤن کے بجائے عبوری حکومت کی تشکیل پر فوج کی تعریف کی ہے۔ تاہم واشنگٹن نے کہا ہے کہ امریکہ کو "اختتام ہفتہ اور گزشتہ ہفتوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ہلاکتوں اور زخمی ہونے کی رپورٹوں پر شدید صدمہ ہوا ہے۔
محکمہ خارجہ کی معمول کی بریفنگ میں ترجمان میتھیو ملرنے کہا، "یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس ان اموات کے لیے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے مکمل اور شفاف تحقیقات ہوں۔"
ملر نے کہا کہ امریکہ نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں کہ فوج نے طلباء کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں پر مزیدکریک ڈاؤن کرنے کے لیے دباؤ کو مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا،"اگر یہ در حقیقت درست ہے کہ فوج نے قانونی طور پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے مطالبات کی مزاحمت کی تھی، تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔"
بنگلہ دیش میں بغاوتوں اور فوجی انقلاب کی تاریخ: 1975-2024
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کئی ہفتوں کے پرتشدد مظاہروں کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے اور ملک سے چلی گئی ہیں۔ جس کا اعلان پیر کو آرمی چیف کے ٹیلی ویژن پر خطاب میں کیا گیا۔
اس تبدیلی نے ایک بار پھر ملک کی سیاسی ہلچل اور بغاوتوں کی تاریخ پر توجہ مرکوز کر دی ہے، جس کا آغاز 1975 میں ملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کےایک فوجی بغاوت میں قتل سے ہوا تھا۔
مستعفی ہونے والی وزیراعظم حسینہ کے والد، اورملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کو ان کے خاندان کے بیشتر افراد سمیت ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں طویل عرصے تک فوجی حکمرانی کا آغاز ہوا۔۔ اسی سال دو اور بغاوتیں نومبر میں جنرل ضیاء الرحمن کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ ختم ہوئیں۔
بنگلہ دیش نے جنوری 2010 میں ان پانچ سابق فوجی عہدے داروں کو، جنھوں نے 1975ء میں قوم کے آزادی کے قائد کو قتل کیا تھا، پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔
قتل کا مشہور مقدمہ مقتول قائد کی بیٹی شیخ حسینہ کی حکومت میں چلا۔ وہ اس سے ایک سال قبل ملک کی دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئی تھیں۔