پاکستانی انتخابات: تاج پوشی کی طرح یا پہلے سے طے شدہ؟
پاکستان میں جمعرات کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بارے میں خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ انتخابات میں اب زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔ لیکن بظاہر الیکشن کی فضا اور ماحول دکھائی نہیں رہا۔ بہت سے ووٹر مایوسی کا شکار ہیں اور بہت سے لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ آیا سیاسی جھگڑوں، پیچیدہ معاشی صورتِ حال اور دوبارہ جنم لینے والی عسکریت پسندی میں گھرے اس ملک میں انتخابات کوئی حقیقی تبدیلی لا سکیں گے۔
اے پی کے مطابق بہت سے تجزیہ کاروں کے خیال میں موجودہ حالات میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر وزیراعظم کے عہدے کے لیے ایک ہی ممکنہ دعویدار دکھائی دیتا ہے اور وہ ہیں نوازشریف جو اس سے قبل تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔
ان انتخابات میں 44 سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں جو قومی اسمبلی کی 266 نشستوں کے لیے مقابلہ کریں گی،جن میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص 70 نشستیں اس کے علاوہ ہیں۔
اسمبلی میں پہنچنے والے ارکان ملک کے اگلے وزیر اعظم کا انتخاب کریں گے اور اگر کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پاتی تو سب سے زیادہ سیٹیں جتنے والی پارٹی کے پاس مخلوط حکومت بنانے کا موقع موجود ہو گا۔
انتخابی مہم کا آخری روز
عام انتخابات 2024 کی انتخابی مہم (آج) منگل کی رات اختتام پذیر ہو جائے گی جس کے بعد پولنگ تک سیاسی جماعتیں اور امیدوار جلسے جلوس نہیں کر سکیں گی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق رات12 بجے کے بعد جلسے جلوس نہیں کیے جاسکیں گے، خلاف ورزی کرنے والے امیدواروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر میں 26 کروڑ بیلٹ پیپرز اور دیگر انتخابی مواد کی ترسیل کا کام مکمل ہوگیا ہے۔
ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے کنٹرول روم قائم کردیا ہے اور پہلی بار شکایات درج کرانے کے لیے واٹس ایپ کا استعمال کیا جائے گا۔
ووٹ ڈالنے کے لیے زائدالمیعاد قومی شناختی کارڈ بھی قابلِ قبول
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے اصل شناختی کارڈ ضرور ہمراہ لائیں۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ زائد المیعاد قومی شناختی کارڈ بھی قابلِ قبول ہو گا البتہ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی یا کوئی اور دستاویزا قبول نہیں کی جائے گی۔