بھارت کی معروف اور تاریخی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر طارق منصور نے یونیورسٹی کی صدی تقریبات میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بطورِ مہمانِ خصوصی مدعو کیا ہے۔ اس فیصلے پر طلبہ، اساتذہ، اور دیگر حلقے دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔
ایک حلقہ اس فیصلے کی شدید مخالفت کر رہا ہے تو دوسرے کی جانب سے حمایت اور تائید کی جا رہی ہے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی 22 دسمبر کو وزیرِ تعلیم رمیش پوکھریال کے ہمراہ اس تقریب میں 'ورچووَل' شرکت کریں گے۔ نریندر مودی تقریبات کا افتتاح نئی دہلی سے کریں گے۔ لیکن ان کی شرکت پر بعض حلقوں کی مخالفت کے پیشِ نظر یونیورسٹی میں حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔
علی گڑھ یونیورسٹی میں معمول کی سیکیورٹی کے علاوہ جامعہ کے باہر 'سریع الحرکت فورس' کے جوان بھی تعینات ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ جب وزیرِ اعظم مودی تقریب کا افتتاح کریں گے تو سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد مزید بڑھا دی جائے گی۔
تقریب میں نریندر مودی کی شرکت کے معاملے پر یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ دو خیموں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایک حلقہ مخالفت کر رہا ہے تو دوسرا حمایت۔ بعض طلبہ رہنماؤں نے اس موقع پر یونیورسٹی میں سیاہ پرچم لہرانے کا پروگرام بھی بنا رکھا ہے۔
اس صورتِ حال پر یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق نائب صدر ندیم انصاری کہتے ہیں کہ 'صدی تقریب' میں نریندر مودی کی موجودگی قطعاً برداشت نہیں کی جائے گی۔
ان کے بقول اگر وائس چانسلر اپنے مفاد کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم کو مدعو کر رہے ہیں تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ نریندر مودی کو اپنی رہائش گاہ پر بلاتے۔
ندیم انصاری نے کہا کہ اگر اس پروگرام کی وجہ سے یونیورسٹی کا ماحول خراب ہوتا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہو گی۔
دوسری جانب طلبۂ یونین کے صدر فرحان زبیری کا مؤقف ہے کہ وزیرِ اعظم مودی اس یونیورسٹی کی صدی تقریبات کا افتتاح کرنے والے ہیں جسے ان کے بقول دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا جا رہا تھا۔ لہٰذا یونیورسٹی کو اس پر فخر ہونا چاہیے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے باہر بھی وائس چانسلر کے فیصلے کی مخالفت اور حمایت کی جا رہی ہے۔
سابق رکنِ پارلیمنٹ محمد ادیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یونیورسٹی کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت نشیب و فراز سے گزرنا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے سوچا تھا کہ آج کے دن برادرانِ علی گڑھ اور بہی خواہانِ علی گڑھ جشن منائیں گے۔ کیوں کہ انہوں نے 100 سال کا سفر طے کیا ہے۔ ہمیں امید تھی کہ اس موقع پر دنیا سے کوئی بہت بڑا دانش وَر، کسی سائنس دان کو مدعو کیا جائے گا یا کسی ایسے شخص کو بلایا جائے گا جس نے دنیا کو کچھ دیا ہو۔"
"اگر ملک سے ہی کسی کو بلانا ضروری تھا تو صدر کو بلاتے جو یونیورسٹی کا وزیٹر ہوتا ہے۔ لیکن انتظامیہ نے ایک ایسے شخص کو مدعو کیا جو مسلمانوں کو ان کے حقوق اور مقام دیے جانے کا ہی مخالف ہے۔"
محمد ادیب کے بقول یونیورسٹی انتظامیہ نے نریندر مودی کو مدعو کر کے ہم تمام لوگوں پر ستم کیا ہے۔ کیوں کہ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر صرف وائس چانسلر نہیں ہوتا بلکہ ملک کے مسلمان اس کو اپنا رہنما سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اس درس گاہ کا ذمہ دار ہے جہاں سے قوم تعلیم حاصل کر کے نکلتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "اگر نریندر مودی کل دیوبند جاتے ہیں اور وہاں خطاب کرتے ہیں تو یہی کہا جائے گا کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں نے بھی مودی کو قبول کر لیا اور علما نے بھی۔"
طلبہ یونین کے ایک اور سابق صدر اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل زیڈ کے فیضان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نریندر مودی کو مدعو کرنے کی سخت الفاظ میں مخالفت و مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وزیرِ اعظم کو، جو نہ صرف فرقہ پرستی کی علامت ہے بلکہ خود فرقہ پرست بھی ہے، یونیورسٹی کی صدی تقریبات میں بحیثیت مہمانِ خصوصی مدعو کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ چوں کہ یہ افتتاح 'ورچوول' ہو رہا ہے اس لیے اس کی مخالفت کا زیادہ اندازہ نہیں ہو رہا۔ لیکن اگر حالات بہتر ہوتے اور مودی یونیورسٹی میں جاتے یا کسی اور آڈیٹوریم میں جا کر افتتاح کرتے تو ناقابلِ بیان ہنگامہ ہوتا۔
ان کے بقول ابھی علی گڑھ والوں کا ضمیر اتنا مردہ نہیں ہوا کہ وہ اسے برداشت کر لیتے۔
زیڈ کے فیضان نے مزید کہا کہ جو لوگ اس فیصلے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں، ان کی عقلوں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ نریندر مودی کی شرکت سے یونیورسٹی کا کوئی بھلا نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس اس کو نقصان ہی ہوگا۔
لیکن طلبہ یونین کے ایک اور سابق صدر عرفان اللہ خان کہتے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان بھی حکومتِ وقت کے ساتھ اچھے مراسم کے حق میں تھے۔ آج کے حالات میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سے اچھے رشتے قائم کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سرسید کی سوچ کامیاب تھی۔ آج کے دور میں بھی اپنے تعلیمی اداروں کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے اور حکومت سے ہمارے روابط اچھے ہونے چاہئیں۔
ان کے بقول حکومت سے ہمارا سیاسی و نظریاتی اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک ہمارے اداروں اور ہماری نسلوں کے مستقبل کا معاملہ ہے تو اس سے ان سب باتوں کو الگ رکھنا چاہیے اور حکومت سے بات کرنی چاہیے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ملک کے وزیرِ اعظم کو مدعو کیا ہے۔
طلبہ یونین کے سابق جنرل سیکریٹری اور مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے صدر پروفیسر اختر الواسع بھی اسی نظریے کے حامی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اداروں کو حکومت کا حریف نہیں بنانا چاہیے۔ اس کے بجائے ہمیں حکومت کے ساتھ صحت مند رشتے قائم کرنے چاہئیں۔