دنیا بھر کی طرح کراچی میں بھی پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔ تاہم، کراچی میں اس برادری نے تعلیم و صحت سمیت دیگر شعبوں جو خدمات انجام دی ہیں وہ اس کمیونٹی کا سر ہمیشہ بلند رکھنے کے لئے کافی ہیں۔
ماما پارسی اسکول، بی وی ایس پارسی اسکول، این ای ڈی یونیورسٹی، لیڈی ڈیفرین اسپتال، اسپینسر آئی اسپتال، گلبائی میٹرنٹی ہومز، ڈنشا ڈسپینسری، ہوٹل میٹرول پول، وغیرہ۔۔ یہ وہ مقامات ہیں جنہیں صرف کراچی والے ہی بخوبی نہیں جانتے بلکہ پورے ملک میں ان عمارتوں ، تعلیمی و رفاعی اداروں کی دھوم ہے۔
یہ تمام ادارے اور عمارتیں کم و بیش 100سال سے بھی زیادہ عرصے سے کراچی کے لئے پارسی کمیونٹی کا انمول تحفہ ہیں۔ ان کا آج بھی کوئی جواب، کوئی مثال نہیں۔ یہ پارسی کمیونٹی کی ہی فیاضی ہے کہ تعلیم اور صحت کے میدان میں وہ کر دکھایا جو ایک صدی سے ہے اور شاید صدیوں تک رہے گا۔
جمشید نسروانجی رستم جی مہتہ، سر جہانگیر کوٹھاری، ایڈولجی ڈنشا فیملی، خان بہادر کاوٴس جی، بہرام ڈی آواری اور ادیشیر کاوٴس جی اسی کمیونٹی اور شہر کے بہت بڑے نام ہیں جنہوں نے شہر کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن موجودہ سیاسی صورتحال اور مخدوش امن و امان کے سبب شہر میں اب صرف دس فیصد سے بھی کم پارسی برادری رہ گئی ہے۔
’ٹری بیون‘ کی ایک روپوٹ کے مطابق، کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ انٹرپریونیر شپ کی اسٹنٹ پروفیسر ولیکا کا کہنا ہے کہ ”اس وقت بمشکل تمام 1600 پارسی رہ گئے ہیں، جبکہ اب بھی بہت تیزی سے یہ برادری ’ غائب‘ ہو رہی ہے۔ زیادہ تر افراد ہجرت کرگئے ہیں جو ہیں وہ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں جبکہ افرائش نسل یہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔
تاہم، کچھ لوگ اس نظریئے کے مخالف بھی ہیں وہ کہتے ہیں حالات چاہے جیسے بھی رہے ہوں پارسیوں کو یہاں کبھی کچھ نہیں کہا گیا نہ ہی وہ ملک چھوڑ رہے ہیں ۔ پیسے والے لوگ آج بھی سکون سے اپنا بزنس کررہے ہیں اور یہیں رہ رہے ہیں لیکن جن لوگوں کے پاس پیسہ نہیں وہ بہتر تعلیم کے لئے باہر چلے گئے کیوں کہ انہیں وہاں زیادہ مواقع نظر آئے۔“
شہر میں آج بھی جا بجا پارسی برادری کی تعمیر کردہ یا ان سے منسوب عمارات سر فخر سے بلند کئے کھڑی ہیں۔ ان میں سے بعض کی تصویر یہاں شائع کی جا رہی ہیں۔