اسرائیل نے مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں ایک نئی یہودی آبادی کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ شہر یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع نفتالی بینٹ نے الخلیل میں ایک نئی یہودی مضافاتی آبادی کے لیے اپنی منظوری کا اعلان کیا۔
الخلیل میں لگ بھگ ایک ہزار یہودی رہتے ہیں جن کے ارد گرد لگ بھگ دو لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ بینٹ نے کہا ہے کہ اس بستی کے بعد، جو شہر کی پرانی مارکیٹ کے قریب تعمیر ہو گی، الخلیل میں یہودیوں کی آبادی دگنا ہو جائے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سے ایک موجودہ یہودی مضافاتی علاقے اور ٹومب آف پیٹری آرکس کے درمیان، جسے مسلمان مسجد الاقصی کہتے ہیں، علاقائی تسلسل پیدا ہو جائے گا۔
اعلان میں کہا گیا کہ مارکیٹ کی عمارتیں گرا دی جائیں گی اور ان کی جگہ نئے اسٹور بنائے جائیں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جن فلسطینیوں کے پاس نچلی منزل کی دکانیں ہوں گی انہیں نئی دکانیں دی جائیں گی۔
سخت موقف کے حامل یہودیوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ الخلیل سے متعلق یہودی کمیٹی نے اسے تاریخی انصاف کا ایک اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مارکیٹ 19ویں صدی کے اوائل سے یہودیوں کی زیر ملکیت تھی۔
لیکن فلسطینیوں نے اسرائیلی فیصلے کی سختی سے مذمت کی ہے۔ فلسطینوں کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ صائب ارکات نے اس اقدام پر امریکہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ نو آبادکاری کو جائز قرار دینے کے امریکی فیصلے کا پہلا منطقی نتیجہ ہے۔
وہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے گزشتہ ہفتے کے اس بیان کا حوالہ دے رہے تھے کہ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی نہیں ہیں۔
یہ امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہے جسے زیادہ تر بین الاقوامی برادری مسترد کر چکی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو وزیر خارجہ کا بیان غیر مستند ہے۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی یکسر روگردانی ہے۔ اور ایک بار جب آپ بین الاقوامی قانون سے روگردانی کرتے ہیں تو آپ ابتری، دہشت گردی، انتہا پسندی اور بد عنوانی کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
الخلیل اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں کا ایک عرصے سے مرکز رہا ہے۔ 1994 میں ایک امریکی نژاد یہودی آباد کار نے مسجد کے اندر آگ لگا کر 29 فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ 1929 میں فلطینیوں نے الخلیل میں 60 یہودیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔