رسائی کے لنکس

اسرائیلی شہر تل ابیب میں غیر معمولی مشترکہ فلسطینی۔یہودی امن مظاہرہ


  • فلسطینی اور یہودی مظاہرین کی تل ابیب میں غیر معمولی امن مارچ
  • کچھ یرغمالوں کے خاندانوں، سرگرم حکومت مخالف مظاہرین، اور یہودی-عرب امن کیمپ کی جانب سےمظاہرے کیے گئے۔
  • اگرچہ تل ابیب کے مختلف احتجاجی گروپ سیاسی طور پر اختلاف رکھتے ہیں، لیکن وہ فوری جنگ بندی کے مطالبے پر متفق ہیں۔
  • اسرائیل کے95 لاکھ باشندوں میں سے تقریباً 20 فیصد عرب ہیں،اور جن میں سے بہت سے خود کو فلسطینیوں کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔

سینکڑوں فلسطینی اور یہودی اسرائیلیوں نے غزہ میں جنگ اور تشدد کے سلسلے کے خاتمے کا مطالبہ کرتےہوئے جمعرات کی شب پورے تل ابیب میں’’ امن کے لئے ہاں ، معاہدے کےلیے ہاں ‘‘کے نعرے لگاتے ہوئے ایک ہنگامہ خیز مارچ کی۔

"میری سرحد کے ذرا ہی پار بچے، عورتیں اور ننھے بچے مر رہے ہیں۔ وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو میری طرح غمزدہ ہیں، اور وہ بھی میری طرح امن چاہتے ہیں۔" یہ کہنا تھا مظاہرے میں شامل 64 سالہ مارسیلو اولیکی کا جو کیبوٹز نیریم پر سات اکتوبر کو حماس کے حملوں میں زندہ بچ گئے تھے۔

اب جب غزہ جنگ کا سلسلہ جاری ہے ، اسرائیل کے سب سے بڑے شہر تل ابیب میں ہفتے میں کئی بار مظاہرےہوئے ہیں، جن میں سے کچھ غزہ میں یرغمالوں کے خاندانوں نے کیے، کچھ جنگ سے پہلے سرگرم حکومت مخالف مظاہرین نے، اور کچھ یہودی-عرب امن کیمپ کی جانب سے کیے گئے۔

ان کا ایجنڈا اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں جنگ بندی سے شروع ہوتا ہے، لیکن آخر کار، وہ فلسطینی ۔اسرائیل تعلقات کو دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، اور امن کی ماند پڑتی ہوئی تحریک میں نئی زندگی کا سانس لینا چاہتے ہیں۔

اگرچہ تل ابیب کے مختلف احتجاجی گروپ سیاسی طو ر پر اختلاف رکھتے ہیں لیکن وہ فوری جنگ بندی کے مطالبے پر متفق ہیں۔

جمعرات کی مارچ کا اہتمام کرنے والے ایکٹیوسٹ گروپ ،اسٹینڈنگ ٹوگیدر کی 23 سالہ رکن اور ایک طالبہ مایا اوفر نے کہا کہ "ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ امن ایک آپشن ہے، ہمیں انتہائی دائیں بازو کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں ہے... ہمیں صرف درمیان میں موجود لوگوں کو قائل کرنے کی ضرورت ہے جو مزید جنگ نہیں چاہتے۔"

گروپ کے شریک ڈائریکٹر رولا داؤد نے " امن ابھی " اور "جنگ کا کوئی فاتح نہیں" کے نعروں والے بینرز لہراتے ہوئے ایک مجمع سے خطاب کیا۔

داؤد نے کہا ،"اس ملک میں دو لوگ رہتے ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی کہیں نہیں جا رہا ہے۔"

اسرائیل کے 95 لاکھ باشندوں میں سے تقریباً 20 فیصد عرب ہیں، اور جن میں سے بہت سے خود کو فلسطینیوں کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔

اسرائیل کی فلسطینی شہری امیرہ محمد نے امن کیمپ کے بارے میں کہا "یہ بنیادی طور پر 7 اکتوبر کے بعد ،اور جنگ کے آغاز کے بعد خاموش ہو گیا۔"

انہوں نے کہا کہ "انتہا پسند امن کی تحریک سے زیادہ بلند ہو گئے ہیں۔ اس لیے سر دست ، ہمیں اس امن کے بارے میں انتہا پرست ہونا پڑے گا جو ہم چاہتے ہیں۔"

انہوں نے کہاکہ "ہمیں اسرائیل کے اندر فلسطینیوں اور یہودیوں دونوں کے لیے ایک اچھی زندگی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ انہیں یہاں رہنے کا وہی حق حاصل ہے جیسا کہ ہمیں حاصل ہے۔"

انہوں نے کہا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ موجودہ صورتحال برقرار نہیں رہ سکتی۔

مارسیلو اولیکی کا کہنا تھا"امن ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔"

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کے روز امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران "مکمل فتح" پر اپنے اصرار کا اعادہ کیا، جبکہ ملک میں ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحاد کے ارکان نے حماس کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کرنے کی صورت میں حکومت کو گرانے کی دھمکی دی ہے۔

مظاہرین نے اصرار کیا کہ پائدار سیاسی حل کے لیے ان کا ’وژن‘ آئیڈیل ازم سے نہیں بلکہ گہری حقیقت پسندی سے نکلا ہے۔

داؤد نے کہا ،"اس ملک میں دو لوگ رہتے ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی کہیں نہیں جا رہا ہے۔"

سر گرم کارکنوں اور نگراں اداروں کے مطابق اسرائیل کے فلسطینی شہریوں نے جنگ مخالف مظاہروں کی اجازت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ جمعرات کی مارچ کو اس کےایک ہفتے کے بعد ملتوی کر دیا گیا تھا جب منتظمین نے کہا کہ اجازت اچانک منسوخ کر دی گئی تھی۔

غزہ جنگ سات اکتوبر کو حماس کے اس حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس کے نتیجے میں اسرائیل میں 1,197 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 39,175 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس رپورٹ کا مواد اےایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG