رسائی کے لنکس

پاکستانی میوہ جات اسرائیلی بازاروں میں، 'تیسرے ملک کے ذریعے تجارت ہو سکتی ہے


پاکستانی نژاد یہودی فشیل بن خالد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار پاکستانی غذائی اشیا کی پہلی کھیپ اسرائیلی مارکیٹوں میں برآمد کی ہے جس میں کھجور، خشک میوہ جات اور بعض مسالے بھی شامل ہیں۔

فشیل بن خالد نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ مصنوعات برآمد کرنے سے قبل انہوں نے اسرائیلی تاجروں سے دبئی اور جرمنی میں غذائی اشیا کی نمائشوں پر کئی بار ملاقاتیں کیں اور انہیں اس کی خریداری پر قائل کیا۔

اُن کے بقول اس کے بعد ہی کوالٹی چیک، پیکجنگ اور پھر شپنگ ممکن ہوسکی۔ ابتدائی طور پر خشک میوہ جات اور مسالے بھجوائے گئے ہیں جو یروشلم اور حیفہ کے بازاروں میں فروخت ہو رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں پاکستانی کھانے پینے کی اشیا کا معیار بھی قابلِ قبول ہے لیکن ابھی اس معیار کو مزید بہتر بنانے پر اور بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان اس وقت کوئی سفارتی اور سیاسی تعلقات نہیں ہیں اور پاکستان نے اب تک اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا۔

لیکن وقتا فوقتا ایسی خبریں سامنے آتی رہی ہیں جس میں پاکستان اور اسرائیلی حکام کے درمیان بات چیت کی قیاس آرائیاں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ تاہم ایسے رابطوں کی تصدیق دونوں جانب سے کبھی نہیں کی گئی۔

لیکن گزشتہ سال بعض پاکستانی نژاد شہریوں کا دورہ اسرائیل کافی موضوع بحث بنارہا تھا جس کے حق اور مخالفت میں لوگوں نے کُھل کر دلائل دیے تھے۔ اس دورے کے شرکا نے اسرائیلی صدر سےملاقات کے علاوہ اسرائیلی پارلیمنٹ کا بھی دورہ کیا تھا۔ تاہم حکومت پاکستان نے ایسے کسی بھی وفد کے دورے سے حکومتی پالیسی کی تبدیلی کے تاثر کو رد کیا تھا۔

ماہرین کے خیال میں ان ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے سے دونوں ممالک کے کو ترقی کے مواقع مل سکتے ہیں۔

لاہور میں مقیم بین الاقوامی تجارت کے ماہر محمد عثمان بیگ کہتے ہیں کہ اسرائیل اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کی بہت گنجائش ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا دارومدار سفارتی تعلقات سے ہے جس کے مستقبل قریب میں امکانات نظر نہیں آ رہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کے تعلقات نہ ہونے کے باعث یہ ممکن نہیں کہ دونوں ممالک براہ راست تجارت کریں ۔ البتہ ایسا ممکن ضرور ہوسکتا ہے کہ یہ پاکستانی مصنوعات کسی تیسرے ملک سے جس کے ساتھ اسرائیل کے تجارتی تعلقات ہوں، اسرائیل بھجوائی گئی ہوں۔

عثمان بیگ نے مزید کہا کہ پاکستان کے پاس وسیع رقبہ موجود ہے جو اسرائیل کے مقابلے میں 36 گنا زیادہ ہے اور یہاں سے غذائی مصنوعات تیار کرکے انہیں اسرائیل کو درآمد کیا جاسکتا ہے۔

اُن کے بقول پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت جو دنیا میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور آلات جراحی کی بڑی صنعت جس کا سامان یہاں سے یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں تو جاتا ہے لیکن اسرائیل نہیں جاتا۔

عثمان کہتے ہیں کہ اگر ان میں سے کچھ اشیا اسرائیل جاتی بھی ہوں گی تو بھی وہ تیسرے ملک کے ذریعے ہی جاتی ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اسپورٹس کا سامان اور مسالہ جات سمیت دیگر اشیا کی بھی مانگ زیادہ ہوسکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات اس لیے بھی وہاں زیادہ بِک سکتی ہیں کیوں کہ اسرائیل کے شہریوں کی قوت خرید کافی زیادہ ہے۔ لیکن چوں کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی تجارتی تعلقات موجود ہی نہیں ہیں تو ایسے میں اس بہت بڑی اور مضبوط مارکیٹ سے بھارت تو فوائد اٹھارہا ہے لیکن ہم اپنی پالیسی کے باعث ایسا نہیں کرپا رہے ہیں۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

اُن کے بقول اگر ہم مواقعوں کی قیمت کی بات کریں تو ہم اربوں ڈالر چھوڑ رہے ہیں۔

عثمان بیگ کے مطابق دوسری جانب اسرائیل ٹیکنالوجی کی ترقی کے لحاظ سے اس وقت پاکستان سے بہت طاقت ور ہے اور اگر تجارتی تعلقات استوار ہوں تو پاکستان اسرائیلی ٹیکنالوجی سے استفادہ کر سکتا ہے۔

عثمان بیگ کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران اسرائیل نے ایشیا کے متعدد ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات استوار کرنے پر توجہ دی ہے جن میں بھارت اور چین جیسی بڑی منڈیاں بھی شامل ہیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اسرائیل کے کئی مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی حجم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے خاص طور پر اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان امریکی ثالثی میں ہونے والے سیاسی معاہدے پر دستخط کے بعد ان تعلقات میں مزید گرمجوشی دیکھی جارہی ہے جس کا فائدہ پاکستان بھی اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھا کر کرسکتا ہے۔

پنتیس سالہ پاکستانی شہری فشل بن خالد کا تعلق کراچی سے ہے اور انہیں حکومت نے 2019 ہی میں بطور یہودی پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا تھاجس کے تحت وہ مقدس مذہبی مقامات کی زیارت کرنے اسرائیل بھی جاچکے ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG