بلوچستان کی دو بڑی قوم پرست جماعتوں نے شورش زدہ صوبے میں امن و امان کی بحالی کے سلسلے میں حکومتِ پاکستان کی تازہ ترین کوشش پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔
وفاقی کابینہ کی بلوچستان سے متعلق ذیلی کمیٹی کے ارکان نے وزیرِ دفاع نوید قمر کی سربراہی میں ہفتہ کو کوئٹہ میں سیاسی رہنماؤں، وکلا، انسانی حقوق کے کارکنوں اور تاجروں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں، جن کا مقصد بدامنی کے اسباب کا جائزہ لینا اور ان کے سدِباب کے لیے تجاویز کا تبادلہ کرنا تھا۔
لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور نیشنل پارٹی (این پی) کے قائدین نے بات چیت کے عمل میں حصہ نہیں لیا کیوں کہ ان کے خیال میں حکومت نے یہ مہم شروع کرنے میں بہت دیر کر دی ہے جب کہ کابینہ کمیٹی بااختیار بھی نہیں۔
بی این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حسن بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے متعلقہ فریقین سے اُس وقت مشاورتی عمل کا آغاز کیا ہے جب اس کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے میں محض چند ماہ رہ گئے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اس تمام عرصے میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی ہی پالیسی پر عمل پیرا رہی، جس کی وجہ سے اب بھی صوبے میں جبری گمشدگی جیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف وزیاں جاری ہیں۔
’’معاشرہ مکمل طور پر بحرانوں کا شکار ہے ... حالات مشرف کے دور سے بھی زیادہ تشویش ناک ہو چکے ہیں، تو ان حالات میں ہم ان کے ساتھ کیسے بیٹھیں، کیسے یقین کریں کہ یہ بلوچستان کے مسئلے کو حل کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کا ضیاع ہے اور یہ سنجیدہ نہیں اور ان کے پاس اختیار، منڈیٹ بھی نہیں۔‘‘
حسن بلوچ نے کہا کہ صوبے کے مسائل کو ’’طاقت کی زبان کی بجائے سیاسی انداز‘‘ میں حل کیا جائے تو حالات معمول پر آ سکتے ہیں۔ لیکن اُن کا یہ بیان حکومت کے ساتھ بات چیت میں شرکت نا کرنے کے خود اُن کے اپنے موقف کی نفی کرتا ہے۔
بلوچستان میں دیگر قوم پرست جماعتیں بھی مذاکرات کے معاملے میں مبہم موقف کا اظہار کرتی آئی ہیں اور یہ خود بھی وفاق سے بات چیت سمیت دیگر مسائل پر منقسم ہیں۔
ناقدین کے بقول بلوچ قوم پرست رہنماؤں کا مسائل پر کھل کر اظہار خیال نا کرنے کی وجہ ایک طرف صوبے میں متحرک عسکری تنظیموں کا خوف تو دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے سرکاری اداروں کی ناراضگی مول لینے کا ڈر ہے۔
وزیر دفاع نوید قمر نے ہفتہ کی شام کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کیا تھا کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کو بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کا حقیقی اختیار حاصل نہیں۔
اُن کے بقول کمیٹی ’’مکمل طور پر بااختیار‘‘ اور اس کو خفیہ اداروں سمیت فوج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
’’ایسا نہیں ہے کہ حکومت کے آخری چار مہینے رہ گئے ہیں تو اب ہمیں (بلوچستان کا مسئلہ) یاد آیا ہے ... جہاں باقی چیزیں کوشش کے باوجود رہ جاتی ہیں اس میں بھی کئی چیزوں پر اس انداز میں عمل در آمد نہیں ہوا جس طرح ہمارا خیال تھا کہ ہم کر سکیں گے۔‘‘
وفاقی کابینہ کی بلوچستان سے متعلق ذیلی کمیٹی کے ارکان نے وزیرِ دفاع نوید قمر کی سربراہی میں ہفتہ کو کوئٹہ میں سیاسی رہنماؤں، وکلا، انسانی حقوق کے کارکنوں اور تاجروں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں، جن کا مقصد بدامنی کے اسباب کا جائزہ لینا اور ان کے سدِباب کے لیے تجاویز کا تبادلہ کرنا تھا۔
لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور نیشنل پارٹی (این پی) کے قائدین نے بات چیت کے عمل میں حصہ نہیں لیا کیوں کہ ان کے خیال میں حکومت نے یہ مہم شروع کرنے میں بہت دیر کر دی ہے جب کہ کابینہ کمیٹی بااختیار بھی نہیں۔
بی این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حسن بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے متعلقہ فریقین سے اُس وقت مشاورتی عمل کا آغاز کیا ہے جب اس کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے میں محض چند ماہ رہ گئے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کا ضیاع ہے اور یہ (حکومت) سنجیدہ نہیں اور ان کے پاس اختیار، منڈیٹ بھی نہیں۔حسن بلوچ
اُنھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اس تمام عرصے میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی ہی پالیسی پر عمل پیرا رہی، جس کی وجہ سے اب بھی صوبے میں جبری گمشدگی جیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف وزیاں جاری ہیں۔
’’معاشرہ مکمل طور پر بحرانوں کا شکار ہے ... حالات مشرف کے دور سے بھی زیادہ تشویش ناک ہو چکے ہیں، تو ان حالات میں ہم ان کے ساتھ کیسے بیٹھیں، کیسے یقین کریں کہ یہ بلوچستان کے مسئلے کو حل کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کا ضیاع ہے اور یہ سنجیدہ نہیں اور ان کے پاس اختیار، منڈیٹ بھی نہیں۔‘‘
حسن بلوچ نے کہا کہ صوبے کے مسائل کو ’’طاقت کی زبان کی بجائے سیاسی انداز‘‘ میں حل کیا جائے تو حالات معمول پر آ سکتے ہیں۔ لیکن اُن کا یہ بیان حکومت کے ساتھ بات چیت میں شرکت نا کرنے کے خود اُن کے اپنے موقف کی نفی کرتا ہے۔
بلوچستان میں دیگر قوم پرست جماعتیں بھی مذاکرات کے معاملے میں مبہم موقف کا اظہار کرتی آئی ہیں اور یہ خود بھی وفاق سے بات چیت سمیت دیگر مسائل پر منقسم ہیں۔
ناقدین کے بقول بلوچ قوم پرست رہنماؤں کا مسائل پر کھل کر اظہار خیال نا کرنے کی وجہ ایک طرف صوبے میں متحرک عسکری تنظیموں کا خوف تو دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے سرکاری اداروں کی ناراضگی مول لینے کا ڈر ہے۔
وزیر دفاع نوید قمر نے ہفتہ کی شام کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کیا تھا کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کو بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کا حقیقی اختیار حاصل نہیں۔
اُن کے بقول کمیٹی ’’مکمل طور پر بااختیار‘‘ اور اس کو خفیہ اداروں سمیت فوج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
’’ایسا نہیں ہے کہ حکومت کے آخری چار مہینے رہ گئے ہیں تو اب ہمیں (بلوچستان کا مسئلہ) یاد آیا ہے ... جہاں باقی چیزیں کوشش کے باوجود رہ جاتی ہیں اس میں بھی کئی چیزوں پر اس انداز میں عمل در آمد نہیں ہوا جس طرح ہمارا خیال تھا کہ ہم کر سکیں گے۔‘‘