اسلام آباد —
پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاورمیں اتوار کو ایک کار بم دھماکے میں حکام کے مطابق کم از کم 37 افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوگئے۔
پولیس حکام کے مطابق تاریخی قصہ خوانی بازار میں مشتبہ شدت پسندوں نے ایک کار میں رکھے گئے بارودی مواد میں ریموٹ کنٹرول سے دھماکا کیا۔
دھماکے سے متعدد گاڑیوں اور عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا اور جائے وقوع پر آگ بھڑک اٹھی۔
امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر لاشوں اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جب کہ آگ بجھانے والے عملے نے کارروائی کرتے ہوئے آتشزدگی کو مزید پھیلنے سے روکا۔
پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار شفقت ملک نے جائے وقوع پر صحافیوں کو بتایا کہ قصہ خوانی بازار میں مسافر خانے کے قریب کھڑی گاڑی میں کم ازکم 225 کلو گرام بارودی مواد رکھا گیا تھا۔
’’پوری کی پوی گاڑی کو بم بنایا ہوا تھا، ہماری ابتدائی تحقیقات میں شواہد ملے ہیں کہ دھماکے کے وقت اس گاڑی میں کوئی موجود نہیں تھا اور دھماکے کی جگہ پر گڑھا بھی آپ نے دیکھا ہوگا۔‘‘
ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جب کہ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک ہفتے کے دوران یہ تیسرا ہلاکت خیز واقعہ تھا۔ جمعہ کو چارسدہ روڈ پر سرکاری ملازمین کو لے جانے والی ایک بس میں بم دھماکے سے 19 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ گزشتہ اتوار کو پشاور کے ایک چرچ میں دو خودکش بم دھماکوں میں کم ازکم 83 افراد مارے گئے۔
رواں ماہ کے اوائل میں وفاقی حکومت نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ملک میں امن و امان بحال کرنے کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن تاحال اس بارے میں کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آسکی ہے جس پر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخواہ کے سینیئر صوبائی وزیر سراج الحق نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں پہل کرے اور کوئی پالیسی وضع کرے۔
’’قبائلی علاقں میں جا کر رابطے کرنا، کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا، افراد کا چناؤ کرنا، ذمہ داران کا تعین کرنا اور قوم کے سامنے ساری صورتحال رکھنا یہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسلام آباد میں ایک لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔‘‘
رواں ماہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے علاوہ بعض شمال مغربی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر شدت پسندوں کے حملے بھی دیکھنے میں آئے اور مبصرین بھی اس تناظر میں حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد کسی ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان کرے۔
تجزیہ کار اے زید ہلالی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ حکومت کو فوج کے ساتھ مل کر ایک جامع پالیسی بنانی چاہیے تاکہ شدت پسندوں کو بات چیت پر مجبور کیا جا سکے۔
’’اب یہ چیز بہت آگے نکل گئی ہے بڑی ابتر صورتحال نظر آرہی ہے کب تک انتظار کرنا چاہتے ہیں اور کس بات کا انتظار ہو رہا ہے۔ طالبان سے بھی ہماری گزارش ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔‘‘
وفاقی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ شدت پسندوں سے مذاکرات کے فیصلے پر قائم ہے تاہم اس بارے میں پالیسی بوقت ضرورت تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق تاریخی قصہ خوانی بازار میں مشتبہ شدت پسندوں نے ایک کار میں رکھے گئے بارودی مواد میں ریموٹ کنٹرول سے دھماکا کیا۔
دھماکے سے متعدد گاڑیوں اور عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا اور جائے وقوع پر آگ بھڑک اٹھی۔
امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر لاشوں اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جب کہ آگ بجھانے والے عملے نے کارروائی کرتے ہوئے آتشزدگی کو مزید پھیلنے سے روکا۔
پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار شفقت ملک نے جائے وقوع پر صحافیوں کو بتایا کہ قصہ خوانی بازار میں مسافر خانے کے قریب کھڑی گاڑی میں کم ازکم 225 کلو گرام بارودی مواد رکھا گیا تھا۔
’’پوری کی پوی گاڑی کو بم بنایا ہوا تھا، ہماری ابتدائی تحقیقات میں شواہد ملے ہیں کہ دھماکے کے وقت اس گاڑی میں کوئی موجود نہیں تھا اور دھماکے کی جگہ پر گڑھا بھی آپ نے دیکھا ہوگا۔‘‘
ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جب کہ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک ہفتے کے دوران یہ تیسرا ہلاکت خیز واقعہ تھا۔ جمعہ کو چارسدہ روڈ پر سرکاری ملازمین کو لے جانے والی ایک بس میں بم دھماکے سے 19 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ گزشتہ اتوار کو پشاور کے ایک چرچ میں دو خودکش بم دھماکوں میں کم ازکم 83 افراد مارے گئے۔
رواں ماہ کے اوائل میں وفاقی حکومت نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ملک میں امن و امان بحال کرنے کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن تاحال اس بارے میں کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آسکی ہے جس پر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخواہ کے سینیئر صوبائی وزیر سراج الحق نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں پہل کرے اور کوئی پالیسی وضع کرے۔
’’قبائلی علاقں میں جا کر رابطے کرنا، کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا، افراد کا چناؤ کرنا، ذمہ داران کا تعین کرنا اور قوم کے سامنے ساری صورتحال رکھنا یہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسلام آباد میں ایک لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔‘‘
رواں ماہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے علاوہ بعض شمال مغربی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر شدت پسندوں کے حملے بھی دیکھنے میں آئے اور مبصرین بھی اس تناظر میں حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد کسی ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان کرے۔
تجزیہ کار اے زید ہلالی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ حکومت کو فوج کے ساتھ مل کر ایک جامع پالیسی بنانی چاہیے تاکہ شدت پسندوں کو بات چیت پر مجبور کیا جا سکے۔
’’اب یہ چیز بہت آگے نکل گئی ہے بڑی ابتر صورتحال نظر آرہی ہے کب تک انتظار کرنا چاہتے ہیں اور کس بات کا انتظار ہو رہا ہے۔ طالبان سے بھی ہماری گزارش ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔‘‘
وفاقی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ شدت پسندوں سے مذاکرات کے فیصلے پر قائم ہے تاہم اس بارے میں پالیسی بوقت ضرورت تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔