پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے لیے حزب مخالف کی طرف سے تیار کیے گئے ضابطہ کار کو حکومت نے ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن اس بارے میں غیر سنجیدہ دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت حزب مخالف کے ساتھ ضابطہ کار پر باہمی مشاورت کے لیے تیار ہے۔
پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سے شروع ہونے والی سیاسی رسہ کشی جاری ہے اور ایک روز قبل ہی حزب مخالف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ماتحت تحقیقاتی کمیشن کے لیے مجوزہ حکومتی ضابطہ کار کو مسترد کرتے ہوئے دو روز تک سیر حاصل مشاورت کے بعد اپنا متفقہ ضابطہ کار ترتیب دیا تھا۔
تاہم بدھ کو وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے وزیرقانون زاہد حامد کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حزب مخالف کے تیار کردہ ضابطہ کار سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس سارے معاملے کو سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے۔
"اپوزیشن کے ایک مخصوص گروپ کی طرف سے ہدف کرپشن نہیں ہے ہدف ایک شخصیت ہے اور اس شخصیت کو وہ راستے سے ہٹا کر یا ان کے نام کو وہ متنازع بنا کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے انھیں قصور وار قرار دیا تو وہ اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں گے لیکن حزب مخالف کی بعض جماعتیں تحقیقات سے قبل ہی وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی آرہی تھیں۔
لیکن منگل کو ان کے اجلاس میں اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا اور اپنے متفقہ ضابطہ کار میں حزب مخالف نے کہا تھا کہ کمیشن نوے روز میں تحقیقات مکمل کرے اور اس کا آغاز وزیراعظم اور ان کے خاندان سے کرے۔
اس پر وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے کو نیک نیتی سے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتی ہے اور حزب مخالف کو چاہیے کہ وہ بھی سپریم کورٹ پر اعتماد کرتے ہوئے سچ کو قوم کے سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
"ہماری درخواست یہ ہے کہ نیک نیتی ہونی چاہیے ہماری درخواست ہے کہ یہ سارا معاملہ سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ہماری درخواست ہے کہ یہ سب کچھ جلدی سے جلدی ہونا چاہیے لیکن اگر آپ میں اور ہم میں اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ آگے نہیں بڑھے گا۔"
حکومت نے جو ضابطہ کار وضع کیا تھا اس میں نہ صرف پاناما بلکہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی پاکستانی شہری کی آف شور کمپنیوں کا پتا لگانے، بینکوں سے قرضے معاف کروانے والوں اور غیر قانونی طریقے سے رقوم بیرون ملک لے جانے والوں کی تحقیقات کا کہا گیا۔
لیکن حزب مخالف کا موقف ہے کہ حکومتی ضابطہ کار کے تحت اس معاملے کی تحقیقات بلاوجہ طوالت کا شکار ہوں گی اور اس کے بقول حقائق سامنے نہیں آسکیں گے۔