پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت قبائلی علاقوں میں تمام عسکریت پسندوں سے امن کے لیے بات چیت پر تیار ہے بشرطیکہ وہ تشدد کی راہ ترک کر دیں۔
لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر اتوار کو صحافیوں کے ایک وفد سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ وہ ’ہتھیار پھینکنے‘ کی اصطلاح کا استعمال دانستہ طور پر نہیں کر رہے کیوں کہ یہ عمل قبائلی روایات کے برعکس ہے۔
ملک کے بڑے اخبارات میں پیر کو شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ حکمت عملی شمال مغربی ضلع سوات میں انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے کامیابی سے اپنائی جا چکی ہے، جہاں شدت پسندوں کو پہلے مذاکرات کی پیشکش کی گئی اور جب یہ کوشش کامیاب نا ہو سکی تو بھرپور فوجی کارروائی کے ذریعے ریاست کی عمل داری بحال کرائی گئی۔
’’ہم قبائلی علاقوں میں بھی امن (مذاکرات) کو موقع دینا چاہتے ہیں۔‘‘ اخبارات میں شائع ہونے والی وزیر اعظم کی گفتگو کے مطابق ’’اگر (یہاں بھی) مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوئیں تو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کیا جائے گا۔‘‘
اُن کا اشارہ بظاہر شمالی وزیرستان کی طرف تھا کیوں کہ وفاق کے زیر انتظام دیگر چھ قبائلی ایجنسیوں میں پاکستانی فوج آپریشنز مکمل کر چکی ہے یا پھر یہ کارروئیاں ابھی جاری ہیں۔
وزیر اعظم کا یہ بیان اُن امریکی مطالبات کے برعکس ہے جن میں عسکریت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں کارروائی کرنے کے حوالے سے دباؤ میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ سے منسلک حقانی نیٹ ورک کا اولین ہدف افغانستان میں امریکی افواج اور دیگر مفادات ہیں جن کے خلاف مہلک حملوں میں شدت پسندوں کو مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا تعاون بھی حاصل ہے۔
آئی ایس آئی پر براہ راست الزام تراشی پاک امریکہ تعلقات میں شدید تناؤ کا باعث بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں وزیر اعظم گیلانی کی دعوت پر بلائی گئی ایک کل جماعت کانفرنس میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد میں بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ’’اپنے لوگوں سے امن کے لیے مذاکرات شروع کیے جائیں۔‘‘