رسائی کے لنکس

فائل فوٹو
فائل فوٹو

ملک بھر کے 35 حلقوں میں ضمنی انتخاب، ووٹوں کی گنتی جاری

پاکستان میں ضمنی انتخابات کے سلسلے میں اتوار کو 35 حلقوں میں پولنگ ہوئی جن میں قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلیوں کے 24 حلقے شامل تھے۔

ان تمام حلقوں پر یا تو کسی وجہ سے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں الیکشن ملتوی کردیا گیا تھا یا پھر یہاں سے کامیاب ہونے والے امیدوار ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے بعد ازاں یہ نشستیں چھوڑ دی تھیں۔

ان نشستوں پر پولنگ کا عمل اتوار کو صبح آٹھ بجے شروع ہوا جو شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔

اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں 641 امیدوار میدان میں ہیں۔ ان حلقوں میں 92 لاکھ 83 ہزار 74 رجسٹرڈ ووٹرز تھے تاہم تقریباً تمام حلقوں میں ٹرن آؤٹ کم رہا۔

ضمنی انتخابات کی سکیورٹی کے لیے پولیس اور دیگر فورسز کے ایک لاکھ اہلکاروں کے علاوہ 40 ہزار سے زائد فوجی جوان بھی تعینات کیے گئے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 'اوورسیز پاکستانی' بھی اس انتخاب میں بذریعہ آن لائن پورٹل اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پانچ ہزار سے زائد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے اتوار کو اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

لاہور میں وائس آف امریکہ کے نمائندے کنور رحمان خان کے مطابق بیشتر پولنگ اسٹیشنز پر ووٹر ٹرن آؤٹ خاصا کم ہے اور روایتی گہما گہمی بھی نہیں۔

کوئٹہ سے ہمارے نمائندے عبدالستار کاکڑ کے مطابق بلوچستان میں اتوار کو صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر الیکشن ہو رہا ہے۔ ان میں پی بی 35 مستونگ اور پی بی 40 خضدار شامل ہیں۔

مستونگ کی نشست پر 28 امیدواروں میں مقابلہ ہے جن میں سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سابق وزیرِ اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نور احمد بنگلزئی میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

حلقے میں ایک لاکھ 7 ہزار 188 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن کے لیے 105 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔

یہ وہی نشست ہے جہاں 13 جولائی کو ایک انتخابی جلسے میں خود کش حملے سے امیدوار سراج رئیسانی سمیت 170 افراد ہلاک اور 200 شدید زخمی ہوگئے تھے۔ خودکش حملے کے بعد اس حلقے میں انتخاب ملتوی کردیا گیا تھا۔

پی بی 40 خضدار کی نشست پر آٹھ امیدواروں میں مقابلہ ہے لیکن امکان ہے کہ اصل مقابلہ بی این پی کے اکبر مینگل اور آزاد امیدوار شفیق الرحمان مینگل کے درمیان ہوگا۔

یہ نشست بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے خالی کی تھی جو قومی اسمبلی کی نشست سے بھی کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس حلقے کے تمام 93 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ حلقے میں کل 76 ہزار 213 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 44 ہزار 536 مرد اور 31 ہزار 677 خواتین شامل ہیں۔

دونوں حلقوں میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور پولنگ اسٹیشنوں پر پولیس کے علاوہ ایف سی، لیویز اور فوج کے اہلکار بھی تعینات ہیں۔

پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق ضمنی انتخاب والے حلقوں میں گہما گہمی تو ہے لیکن ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم ہے۔

اتوار کے انتخابات میں بعض انتخابی حلقوں میں کانٹے دار مقابلے متوقع ہیں۔ ان میں سے بیشتر میں اصل مقابلہ تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کےدرمیان ہے۔ خاص کر ایسے حلقوں میں جہاں عمران خان جیتے تھے اور بعد میں انہوں نے یہ نشست چھوڑ دی۔ ان میں این اے 43 اسلام آباد اور این اے 247 کراچی بھی شامل ہیں۔

کچھ اور اہم امیدواروں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بھی ضمنی انتخابات کے نتائج پر منحصر ہے۔ ان میں این اے 60 راولپنڈی سے انتخابات لڑنے والے وزیرِ ریلوے شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق بھی شامل ہیں جو تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں اور ان کا مقابلہ نون لیگ کے سجاد خان سے ہوگا۔

این اے 63 ٹیکسلا میں تحریکِ انصاف کے منصور حیات خان اور ن لیگ کے عقیل ملک کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہ نشست وفاقی وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے دو نشستیں جیتنے کے بعد چھوڑی تھی۔ اس نشست پر انہوں نے سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو شکست دی تھی۔

مزید لوڈ کریں

XS
SM
MD
LG