قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان کے صوبے بلوچستان کی آبادی تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ لیکن آبادیوں کے درمیان فاصلہ بہت ہونے اور صوبائی حکومت کے پاس وسائل کی کمی کے باعث صوبے کے مکینوں کو قدرتی وسائل کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔
ناقدین اس صورتِ حال کی ایک بڑی وجہ صوبائی حکومت کی سطح پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کو قرار دے رہے ہیں۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں صوبے کی موجودہ صوبائی حکومت پر بدعنوانیوں کے سنگین الزامات عائد کیے۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان کے ساتھ ساتھ اب صوبائی حکومت میں شامل جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکنِ اسمبلی مجید اچکزئی نے بھی صوبائی حکومت پر رشوت خوری، بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات عائد کر دیے ہیں۔
مولانا عبدالواسع نے الزام عائد کیا کہ صوبائی حکومت کے ارکان نے اربوں روپے ہڑپ کیے اور ایک بھی پائی عوام کی بہبود کے لیے خرچ نہیں کی۔
ان کےبقول موجودہ حکومت اتنی نا اہل ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ سے آٹھ ارب روپے بھی ریلیز نہیں کیے اور نہ اب آئندہ ہو سکیں گے اور صوبے کا پورے کا پورا بجٹ ضائع ہو جائے گا۔
بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے سربراہ اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما مجید خان اچکزئی نے مقامی میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ پی اے سی نے مختلف حلقوں کی طرف سے صوبائی حکومت پر عائد کیے گئے الزامات کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ مگر ان کے بقول بدقسمتی سے سابق اور موجودہ حکومت کے دور میں فنڈز میں کی گئی خُورد بُرد کا کوئی ریکارڈ ملا ہے اور نہ ہی کوئی محکمہ اس حوالے سے رپورٹ دینے کو تیار ہے۔
صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے اپنی پارٹی کے رہنما مجید اچکزئی اور حزب اختلاف کے قائد مولانا عبدالواسع کی طرف سے صوبائی حکومت پر کرپشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کی اچھی اور بدعنوانی سے پاک کارکردگی کو بعض غیر جانبدار اداروں نے بھی سراہا ہے۔
ان کے بقول، "ہم نے سب کچھ ٹھیک کیا ہے۔ ساری دنیا، پِلڈاٹ (PILDAT) نے کہہ دیا۔ جو دنیا کی ایجنسیاں ہیں وہ سب کہہ رہی ہیں کہ بلوچستان میں گورمنٹ سسٹم میں اب بہتر ی آئی ہے، کرپشن میں کمی ہوئی ہے۔ چیزیں درستگی کی طرف جارہی ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نہیں ہے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں"۔
قدرتی وسائل سے مالا مال اس جنوب مغربی صوبے میں گزشتہ سال مئی میں نیب نے صوبائی حکومت کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر 60 کروڑ روپے نقد اور 20 کروڑ روپے کی مالیت کا سونا اور غیر ملکی کرنسی برآمد کی تھی۔
اس سلسلے میں سیکرٹری خزانہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشیر خزانہ خالد لانگو اور اُن کے تین سہولت کاروں کو حراست میں بھی لیا گیا تھا جو ابھی تک نیب کی حراست میں ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ نیب پاکستان کی مرکزی ایگزیکٹیو بورڈ کے ایک اجلاس میں سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی اور دیگر کی طرف سے کی گئی بدعنوانیوں کی مالیت 40 ارب روپے بتائی گئی تھی۔
لیکن دو ارب روپے کی پلی بارگین کے بعد نیب نے مشتاق رئیسانی، خالد لانگو اور سہولت کار مجید شاہ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس پر قانونی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل اور سُپریم کورٹ کی طرف سے بارگین کو مسترد کرنے کی ہدایت کے بعد عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔