پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف جو بلا امتیاز کارروائی شروع کی تھی اس کے طے شدہ فوجی اہداف حاصل ہو چکے ہیں لیکن ان کے بقول پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔
منگل کو دیر گئے راولپنڈی میں پاکستان کے یوم دفاع کے موقع پر منعقدہ ایک مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ ان کا ملک دہشت گردی اور غیر روایتی جنگ سے دوچار رہا ہے لیکن ان کے بقول دہشت گردی نے جہاں دنیا کے کئی ممالک کو اندرونی انتشار کا شکار کیا وہیں پاکستان نے اس چیلنج کا مقابلہ کیا ہے۔
"اب ہمیں مسائل کے بعد نئی مشکلات نہیں بلکہ ان کا حل دکھائی دینے لگا ہے، لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے امن کو لاحق اندرونی اور بیرونی خطرات ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔"
پاکستانی فوج نے جون 2014ء میں افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ میں ضرب عضب کے عنوان سے بھرپور کارروائی شروع کی تھی جس میں حکام کے بقول شدت پسندوں کا صفایا کرتے ہوئے ان کے ٹھکانوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
پڑوسی ملک افغانستان کا تذکرہ کرتے ہوئے فوج کے سپہ سالار نے کہا کہ پاکستان خلوص نیت کے ساتھ افغانستان میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان میں امن پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔
"کچھ مفاد پرست عناصر جو افغانستان سے مخلص نہیں اس راہ میں رکاوٹ ہیں، میں ان عناصر پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ برادر اسلامی ملک ہے وہاں کا امن اور استحکام پاکستان کے اپنے مفاد میں بہتر اور ناگزیر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی بہتر مینجمنٹ کو ہمارے قومی مفادات میں اولیت حاصل ہے۔ ہم افغان حکومت کے ساتھ مل کر سرحدی نگرانی کا ایک موثر نظام قائم کرنا چاہتے ہیں مجھے یقین ہے کہ امن کی بہتر صورتحال ہماری مشترکہ اقتصادی ترقی کا ذریعہ بنے گی۔"
جنرل راحیل شریف کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کاوشوں سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کا تذکرہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ امریکہ اور افغانستان کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے دہشت گردوں کے خلاف ان کے بقول کارروائی نہ کرنے پر پاکستان پر تعزیرات عائد کی جائیں۔
امریکہ نے حال ہی میں اتحادی اعانتی فنڈ کی مد میں پاکستان کو 30 کروڑ ڈالر کی امداد بھی اس بنا پر روک دی تھی کہ وزیر دفاع ایش کارٹر نے اس بات کی توثیق نہیں کہ پاکستان دہشت گرد گروپ حقانی نیٹ ورک کے خلاف اپنی سرزمین پر تسلی بخش کارروائی کر رہا ہے۔
تاہم منگل کو واشگنٹن میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ، پاکستان پر کسی بھی طرح کی پابندی کی تجویز پر غور نہیں کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ حکومت کی اعلیٰ سطح پر یہ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے کہ وہ تمام دہشت گردوں بشمول اس کے پڑوسیوں کے لیے خطرہ سمجھے جانے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔
اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی امور کے ماہر ظفر جسپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے میں امریکہ کے کردار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان سے تعاون جاری رکھے۔
"اگر امریکہ نے خطے میں اپنا کردار جاری رکھنا ہے تو اس کے مفاد میں ہوگا کہ پاکستان کو ساتھ رکھے، (دوسری صورت میں) پاکستان کو بھی نقصان ہوگا اور امریکہ کی پالیسیوں کو بھی ہوگا مگر انسداد دہشت گردی کی جنگ کو سب سے زیادہ دھچکا لگے گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ، پاکستان کو ساتھ لے کر چلتا ہے تو خطے میں اسے اپنے مفادات حاصل ہو سکتے ہیں۔