بلوچستان میں لاپتا افراد کے لواحقین کی ایک نمائندہ تنظیم "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" کے روح رواں عبدالقدیر بلوچ "ماما قدیر" کو حکام نے امریکہ جانے سے روک دیا ہے جس کے خلاف انھوں نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ماما قدیر نے بتایا کہ انھوں نے امریکی شہر نیویارک میں سندھ اور بلوچستان سے متعلق ایک تقریب میں شرکت کے لیے جانا تھا لیکن بدھ کو دیر گئے کراچی کے ہوائی اڈے پر حکام نے انھیں جہاز پر سوار ہونے سے روک دیا۔
"ایف آئی اے کے امیگریشن والوں نے روک لیا کہ آپ نہیں جا سکتے، آپ پاکستان مخالف ہیں، آپ کے خلاف ایف آئی آر ہے اور آپ کا نام ای سی ایل میں درج ہے، ہم نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں تو کوئی علم نہیں اگر پتا ہوتا تو ہم اس بارے میں پہلے ہی کچھ کرتے، تو وہ بولے کہ ہمیں ابھی گھنٹہ دو گھنٹہ پہلے اسلام آباد سے اطلاع دی گئی ہے۔"
ماما قدیر کے بقول حکام نے انھیں لگ بھگ تین گھنٹوں تک ہوائی اڈے پر روکے رکھا اور مبینہ طور پر ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا۔
"مختلف طرح کے سوالات پوچھتے رہے، کبھی ایک کمرے میں لے جاتے، کبھی دوسرے کونے میں۔۔۔ پھر جب جہاز چلا گیا تو انھوں نے ہمارے پاسپورٹ اور ویزے کی فوٹو کاپیاں رکھ کر ہمیں واپس بھیج دیا۔"
انھوں نے بتایا کہ ان کے ہمراہ تنظیم کی ایک اور رکن فرزانہ مجید بھی تھیں اور ایک اور خاتون ساتھی فائقہ کو بھی جہاز پر سوار ہونے سے روکا۔
تاحال اس معاملے پر نہ تو کوئی سرکاری ردعمل سامنے آیا ہے اور باوجود کوشش کے متعلقہ حکام سے رابطے کی کوشش کارگر ثابت نہیں ہو سکی ہے۔
اُدھر انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ماما قدیر کو بیرون ملک سفر کرنے سے روکے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔ جمعرات کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کمیشن نے کہا کہ اُسے ان خبروں پر شدید افسوس ہے کہ (ایف آئی اے) کے حکام نے ماما قدیر کو اس وقت بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا جب وہ امریکہ جانے والی پرواز پر سوار ہونے والے تھے۔
’ایچ آر سی پی‘ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائے اور عوام کو آگاہ کیا جائے کہ کارکنوں کو بیرون ملک سفر سے روکنے کا حکم کس نے اور کیوں دیا تھا۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ انھیں امریکی سفارتخانے کی طرف سے تمام دستاویزی کارروائی کے بعد پانچ سال کا ویزہ دیا گیا تھا جب کہ انھوں نے سات مارچ کو ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے دو طرفہ ٹکٹ بھی خریدا تھا۔ ان کے بقول 20 مارچ کو انھوں نے وطن واپس آنا تھا۔
ماما قدیر کے بیٹے عبدالجلیل بھی چند سال پہلے لاپتا ہو گئے تھے اور پھر 2011ء میں ان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔
ان کی تنظیم "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنی جب گزشتہ سال اس کے کارکنوں نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا تھا۔