صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ انھیں ایسا نہیں لگتا کہ امریکی فوجی دستوں کو شام بھیجنے کی ضرورت پڑے۔
یہ بات انھوں نے کو جمعہ کو کوسٹا ریکا کی صدر لورا چنچیلا کے ہمراہ سان ہوزے میں مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔
شام کی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ثبوت ملنے پر امریکی ردعمل بارے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ وہ کسی بھی چیز کو خارج از امکان قرار نہیں دیتے لیکن بظاہر زمینی فوج بھیجنے کا امکان نہیں ہے۔
’’مجھے ایسے حالات نظر نہیں آ رہے کہ شام میں امریکی زمینی فوج داخل ہو، یہ (فوج نا بھیجنا) نہ صرف امریکہ کے لیے اچھا ہو گا بلکہ شام کے لیے بھی اچھا ہی ہو گا۔‘‘
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں سے مشاورت میں وہ اس بات پر متفق تھے۔
مسٹر اوباما کا کہنا تھا کہ اگر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق ہو جاتی ہے تو امریکہ ان معلومات کو بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرے گا۔
انھوں نے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اب تک کیے جانے والے اقدامات کا دفاع بھی کیا۔
’’ہم انتظار نہیں کررہے۔۔۔ اب بھی ہم شام کے بحران کے حل کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والا ملک ہیں۔ ہم حزب مخالف کو غیر مہلک امداد دینے والوں میں سب سے آگے ہیں۔ ہم نے حزب مخالف کی امداد کے لیے 80 ملکوں کو متحرک کیا۔‘‘
صدر اوباما لاطینی امریکہ کے دورے پر ہیں جہاں جمعرات کو انھوں نے میکسیکو کے صدر اینرک پینا نیئٹو سے بھی ملاقات کی تھی۔ انھوں نے کوسٹا ریکا کی صدر چنچیلا سے بات چیت میں خطے کی اقتصادی اور سلامتی کی صورتحال اور امیگریشن کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ بات انھوں نے کو جمعہ کو کوسٹا ریکا کی صدر لورا چنچیلا کے ہمراہ سان ہوزے میں مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔
شام کی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ثبوت ملنے پر امریکی ردعمل بارے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ وہ کسی بھی چیز کو خارج از امکان قرار نہیں دیتے لیکن بظاہر زمینی فوج بھیجنے کا امکان نہیں ہے۔
’’مجھے ایسے حالات نظر نہیں آ رہے کہ شام میں امریکی زمینی فوج داخل ہو، یہ (فوج نا بھیجنا) نہ صرف امریکہ کے لیے اچھا ہو گا بلکہ شام کے لیے بھی اچھا ہی ہو گا۔‘‘
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں سے مشاورت میں وہ اس بات پر متفق تھے۔
مسٹر اوباما کا کہنا تھا کہ اگر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق ہو جاتی ہے تو امریکہ ان معلومات کو بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرے گا۔
انھوں نے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اب تک کیے جانے والے اقدامات کا دفاع بھی کیا۔
’’ہم انتظار نہیں کررہے۔۔۔ اب بھی ہم شام کے بحران کے حل کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والا ملک ہیں۔ ہم حزب مخالف کو غیر مہلک امداد دینے والوں میں سب سے آگے ہیں۔ ہم نے حزب مخالف کی امداد کے لیے 80 ملکوں کو متحرک کیا۔‘‘
صدر اوباما لاطینی امریکہ کے دورے پر ہیں جہاں جمعرات کو انھوں نے میکسیکو کے صدر اینرک پینا نیئٹو سے بھی ملاقات کی تھی۔ انھوں نے کوسٹا ریکا کی صدر چنچیلا سے بات چیت میں خطے کی اقتصادی اور سلامتی کی صورتحال اور امیگریشن کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔