امریکہ کا کہنا ہے کہ صدر براک اوباما اور روسی صدر ولادیمر پوتن نے شام کے بحران کے خاتمے کے لیے شامی قیادت میں سیاسی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کی ثالثی میں مذاکرات اور مشرق وسطیٰ کے اس ملک میں چار سال سے جاری جاںہ جنگی کے خاتمے کے لیے عارضی جنگ بندی کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔
دونوں رہمناؤں کے درمیان 35 منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات ترکی کے شہر انطالیہ میں جی 20 ممالک کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر ہوئی۔
وائٹ ہاؤس نے دونوں رہمناؤں کے درمیان اس ملاقات کو "تعمیری بات چیت" قرار دیا ہے۔ جبکہ صدر پوتن کے خارجہ امور کے مشیر یوری اوشاکوف نے کہا کہ روسی رہنما کی صدر اوباما کے ساتھ "کافی تفصیلی گفتگو ہوئی"۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اوباما اور پوتن نےحالیہ ہفتوں میں ویانا میں ہوئے مذاکرات میں ہونے والی "سفارتی پیش رفت کا ذکر کیا"۔
صدر اباما نے شام میں داعش کے جنگجوؤں سے نمٹنے کے لیے"تمام اقوام کی کوششوں" کا خیر مقدم کیا اور "شام میں روسی فوج کی ان کوششوں کا بھی ذکر کیا جن کا محور" داعش ہے۔
امریکی عہدیدار اکثر اس بات کی شکایت کرتے رہے ہیں کہ ماسکو کی طرف سے شام میں کی جانے والی بمباری میں داعش کو نشانہ بنانے کی بجائے زیادہ تر ان باغی گروپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو صدر بشار الاسد کی حامی فورسز سے لڑ رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان شام کے دارالحکومت میں کسی بھی سیاسی تبدیلی کے بعد صدر بشارالاسد کے کردار کے بارے بھی اختلافات موجود ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے عارضی جنگ بندی معاہدے کے شرائط پر عمل درآمد کے اپنے دیرینہ مطالبے کو بھی دہرایا جہاں روس نواز علیحدگی پسند یوکرین حکومت کی حامی فورسز سے برسرپیکار ہیں۔
صدر اوباما نے گزشتہ ماہ جزیرہ نما سینا کے اوپر میٹروجیٹ کے مسافر طیارے کے حادثے میں روسی شہریوں کی ہلاکت پر پوتن کے ساتھ "گہرے افسوس" کا اظہار کیا۔