امریکہ کے صدر براک اوباما نے شام کے شہر حلب کے مشرقی حصے میں شہریوں پر "روسی اور شامی حکومت کے فضائی حملوں" کی شدید مذمت کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق اوباما نے جمعرات کو جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل کو فون کیا جس میں دونوں راہنماؤں نے اتفاق کیا کہ روس اور اسد (شام کے صدر بشار الاسد) کی حکومتوں پر لڑائی کو روکنے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے"خاص طور پر ذمہ دار ہیں۔"
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ ماسکو کی طرف سے حلب میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے پر بمباری جاری رکھے جانے کے تناظر میں شام کے معاملے پر امریکہ، روس سے سفارتی بات چیت معطل کرنے کی "نہج پر پہنچ" چکا ہے۔
شہر کے اس حصے میں لاکھوں شہری پھنسے ہوئے ہیں جن میں سے نصف بچے ہیں۔
کیری کا کہنا تھا کہ روس کی طرف سے فضائی حملے جاری رکھنے کے عزم کے بعد یہ "غیرمعقول" ہے کہ بات چیت جاری رکھی جائے اور "معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے۔"
"یہ ان میں سے ایک موقع ہے کہ جس میں ہم فی الوقت متبادل ذرائع تالس کریں۔ مجھے شام کے عوام کے مستقبل کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے۔"
جان کیری کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ محکمہ خارجہ کریملن کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن "روس کی طرف سے بعض قابل ذکر اقدام کو روکنے کے لیے" وہ ایک طرف ہونے کو بھی تیار ہے۔
ترجمان جان کربی نے جمعرات کو کہا کہ "ہم اس طرح کی معطلی کے بارے میں تیار ہیں اور اس بارے میں ہماری حکومت میں مشاورت بھی ہو رہی ہے اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے بھی۔"
واشنگٹن، ماسکو پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی پاسداری اور شام میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کی اجازت کو یقینی بنانے کے لیے بشار الاسد پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔
روس یہ کہہ چکا ہے کہ وہ 48 گھنٹوں کی جنگ بندی کے لیے آمادہ ہے تاکہ امدادی سامان کی فراہمی ہو سکے لیکن اس کے بقول ایک ہفتے تک کی جنگ بندی سے عسکریت پسند گروپس پھر سے منظم ہو سکتے ہیں۔