اردو کی معروف ناول نگار، ادیبہ اور افسانہ نویس الطاف فاطمہ 91 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
الطاف فاطمہ لاہور میں مقیم تھیں اور طویل عرصے سے علیل تھیں۔
وہ بھارتی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو میں 1927ء کو پیدا ہوئیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان لاہور آ کر آباد ہو گیا تھا۔ لکھنو کی تہذیبی روایات کا اثر الطاف فاطمہ کی شخصیت پر نمایاں تھا۔
انہوں نے جامعۂ پنجاب سے اردو ادب میں ایم اے کیا تھا جس کے بعد وہ اسلامیہ کالج برائے خواتین لاہور میں اُردو کی استاد مقرر ہوئیں۔
الطاف فاطمہ نے بہت سے ناول اور افسانے لکھے۔ ان کا پہلا افسانہ 1962ء میں شائع ہوا۔ ان کے مشہور ناولوں میں نشانِ محفل، عنکبوت، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں، دستک نہ دو شامل ہیں۔
الطاف فاطمہ نے 1971ء میں پاک بھارت جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بھی ایک ناول ’چلتا مسافر‘ تحریر کیا تھا۔
الطاف فاطمہ کے انتقال کو ملک کے ادبی حلقوں نے ایک بڑا اور ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔
ممتاز شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد نے الطاف فاطمہ کی وفات پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ناولوں نے ناول نگاری میں ایک نئی جہت پیدا کی تھی اور ان کا ناول 'دستک نہ دو' اپنی اشاعت کے وقت اتنا مقبول ہوا تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے اسے ڈرامائی شکل دی تھی۔
معروف قانون دان اور علامہ اقبال کی بہو جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال بھی الطاف فاطمہ کی وفات پر غم زدہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الطاف فاطمہ کی ادبی خدمات لمبے عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔
ناصرہ جاوید کا کہنا تھا کہ انہیں کتابیں اور خاص طور پر ناول پڑھنے کا شوق الطاف فاطمہ کے ناول سے ہی ہوا تھا۔