آپ نے کئی فلموں میں یہ دیکھا ہو گا کہ ہیروئن کسی جنگل میں ایک ایسے قبیلے کے نرغے میں آ جاتی ہے، جنہوں نے اپنے بدن پر کئی رنگوں سے نقش و نگار بنائے ہوئے ہیں۔ پتوں سے ستر پوشی کر رکھی ہے۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے اور تیر کمان ہیں۔ پھر ہیرو وہاں جاتا ہے اور اپنی جان پر کھیل کر ہیروئن کو بچا لاتا ہے۔
ایک 27 سالہ امریکی مہم جو جان ایلن چاؤ نے بھی غالباً یہی سوچ کر جزائر انڈومان کے ایک شمالی جزیرے سنٹینل کا رخ کیا ہو گا۔
اس جزیرے میں دنیا کا ایک ایسا قبیلہ آباد ہے جس کے پاس سے جدید تہذیب کا گزر نہیں ہوا اور وہ آج بھی ہزاروں سال پہلے جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ چاؤ کا خیال تھا کہ جب وہ لوٹے گا تو اس کے پاس دنیا کو سنانے اور دکھانے کے لیے ایک اچھوتی اور منفرد کہانی ہو گی جسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے۔
شاہد یہ کہانی اس کی تصوراتی ہیروئن تھی جس حاصل کرنے کے لیے اس نے سنٹینل کے ساحل پر اپنے قدم اتارے، لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ فلم میں تو ہیرو بچ جاتا ہے لیکن عملی زندگی میں ہیرو بے موت مارا جاتا ہے۔
بھارتی جزائر انڈومان کے شمالی جزیرے سنٹینل میں آباد قدیم قبیلے کے افراد اپنے تحفظ اور شکار کے لیے آج بھی تیر کمان استعمال کرتے ہیں۔ حکومت ان کی روايات کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ بھارتی ساحلی محافظ اگرچہ جزیرے کے قریب نہیں جاتے تاہم وہ محفوظ مقامات سے اس پر نظر رکھتے ہیں۔
اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق چاؤ نے جیسے ہی جزیرے کے ساحل پر اپنا قدم رکھا تو اسے تیروں کی بوچھاڑ کا سامنا ہوا۔ جب وہ زخمی ہو کر گر پڑا تو قبیلے کے لوگوں نے اس کے گلے میں رسی ڈالی اور اسے گھسیٹ کر جزیرے کے اندر لے گئے۔
ایک اندازے کے مطابق شمالی سنٹینل جزیرے میں آباد قبائلیوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے اور وہ آج بھی ہزاروں سال پہلے کے انداز میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہیں جدید زندگی کی کوئی بھی سہولت حاصل نہیں ہے۔ ان کے پاس اوڑھنے پہننے کو کچھ نہیں۔ کئی قبائلی تو ننگ دھڑنگ رہتے ہیں اور کچھ برائے نام ستر پوشی کرتے ہیں۔ اپنی حفاظت اور شکار کے لیے ان کے پاس واحد ہتھیار تیر کمان ہے۔
اس قبیلے سے بیرونی دنیا کا پہلا رابطہ سن 1867 میں اس وقت ہوا جب ایک انڈین تجارتی بحری جہاز جزیرے کے قریب سمندری چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا اور عملے کے ارکان نے اپنی جانیں بچانے کے لیے ساحل کا رخ کیا جہاں قبائلیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ غالباً یہ قبائلیوں کے لیے بیرونی دنیا کے کسی شخص کو دیکھنے کا پہلا موقع تھا۔ بعد ازاں ایک اور بحری جہاز نے وہاں پہنچ کر عملے کے ارکان کی جان بچائی۔ اس کے بعد سن 1887 میں برطانوی حکومت نے ان قبائل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سے آج تک وہ مسلسل بیرونی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔
امریکی مہم جوجان ایکن چاؤ نے جزیرے پر جانے کے لیے مقامی ملاحوں سے رابطہ کیا لیکن کوئی تیار نہیں ہوا۔ آخرکار ایک ملاح نے بھاری رقم کے بدلے اسے جزیرے سے کچھ دور اتارنے کی حامی بھر لی۔ چاؤ نے ایک چھوٹی کشتی اور چپو اپنے ساتھ رکھ لیے۔ جب جزیرہ کے قریب پہنچا تو چاؤ نے اپنی کشتی سمندر میں اتاری اور اسے چپوؤں سے جزیرے کے ساحل پر لے گیا۔
ملاح نے، جو اب پولیس کی قید میں ہے، بتایا کہ وہ دور سے چاؤ کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی اس کی کشتی کنارے سے لگی، اور اس نے اپنا قدم ساحل پر اتارا، درختوں کے پیچھے چھپے ہوئے قبائلیوں نے اس پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ جب وہ گر پڑا تو وہ باہر نکل آئے اور انہوں نے اس کی گردن میں رسی ڈالی اور اسے گھسیٹ کر جزیرے کے اندر لے گئے۔ اس کے بعد کیا ہوا، اسے معلوم نہیں ہے، کیونکہ سمندر سے درختوں کے پیچھے جزیرے کے اندر کا منظر دکھائی نہیں دیتا۔
ملاح کا کہنا ہے کہ وہ اگلے روز اس مقصد کے لیے پھر اسی مقام پر گیا کہ اگر قبائلیوں نے چاؤ کی نعش ساحل پر پھینک دی ہو تو وہ اسے چوری چھپے اٹھا کر واپس لے جائے، لیکن وہاں کچھ نہیں تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ انہوں نے نعش کے ساتھ کیا سلوک کیا یا کہیں وہ اسے کھا تو نہیں گئے کیونکہ آدم خور قبائل بھی تو اسی دنیا میں رہتے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ سنٹینل جزیرے پر بھارتی قوانین لاگو ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن پولیس نے چاؤ کے قتل کا مقدمہ نامعلوم اشخاص کے خلاف درج کر دیا ہے اور ان سات افراد کو قتل میں معاونت کے جرم میں گرفتار کر لیا ہے جنہوں نے اسے جزیرے تک پہنچانے میں مدد دی تھی۔
پولیس کے ایک عہدے دار پاتھک نے میڈیا کو بتایا ہے کہ تفتیش جاری ہے اور حکام قبائل کی فلاح و بہبود کے ماہرین سے رابطے میں ہیں تاکہ کسی طرح قبائلیوں سے رابطہ کر کے چاؤ کی نعش واپس لی جا سکے۔