رسائی کے لنکس

ہم جنس پرستی پر پاکستانی شارٹ فلم 'بھیتر', کیا ایسے موضوعات پر بھی بات ہونی چاہیے؟


پاکستانی ہدایت کار مظہر معین کی ہم جنس پرستی پر مبنی شارٹ فلم 'بھیتر'ریلیز سے قبل ہی سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں ہے۔ فلم کی کہانی دو خواتین ہم جنس پرستوں کے گرد گھومتی ہے۔

شارٹ فلم 'بھیتر' کا ٹیزر ریلیز ہوا تو سوشل میڈیا پر تو جیسے طوفان کھڑا ہو گیا۔

حال ہی میں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والی 'جوائے لینڈ' کی طرح اس شارٹ فلم کا عنوان بھی متنازع ہے۔ لیکن اس کو بنانے والوں کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ اس قسم کے موضوعات کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔

جس طرح 'جوائے لینڈ' میں ایک نوجوان لڑکے اور ایک خواجہ سرا (ٹرانس جینڈر )کے درمیان تعلقات کی عکاسی کی گئی تھی۔ اسی طرح 'بھیتر' کی کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی ہے جسے ایک دوسری عورت سے پیار ہوجاتا ہے۔یہ فلم بہت جلد مظہر معین کے یوٹیوب چینل 'میم کہانی' پر ریلیز کی جائے گی اور اس کا دورانیہ 15 سے 16 منٹ ہوگا۔

'بھیتر' میں جویریہ عباسی جیسی منجھی ہوئی اداکارہ مرکزی کردار نبھا رہی ہیں جب کہ ان کے ساتھ اس میں دو نئے چہرے منال صدیقی اور عثمان چوہدری اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔ اس کی کہانی تو ہدایت کار کی اپنی ہےلیکن اسے اسکرپٹ کی شکل ماہر کمال نے دی ہے۔

فلم سنیما کے بجائے چاہے یوٹیوب پر ریلیز ہو لیکن ٹیز ر میں جس طرح دو عورتوں کے درمیان قربت دکھائی گئی ہے۔ اس پر انسٹاگرام سمیت ہر پلیٹ فارم پر تنقید ہوئی ہے تاہم اس کو بنانے والوں کے خیال میں عوام کی آگاہی کے لیے ایسی کہانیوں پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی صارفین نےاس فلم کے ٹیزر پر خوب تنقید کی۔

بھارت کے کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی اس شارٹ فلم کے ٹریلر کو شیئر کیا جا رہا ہے۔

یہی نہیں انسٹاگرام پر بھی فلم کے ٹیزر کے نیچے لوگوں نے سخت کمنٹ دیے جس میں کسی نے اسے سیلاب آنے کی وجہ تو کسی نے اسے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا۔

'دوسروں کی رائے کے ڈر سے آپ کوئی بھی چیز نہیں بناسکتے'

مظہر معین کا شمار پاکستان کے ان ہدایت کارروں میں ہوتا ہے جو دوسروں کے مقابلے میں ہٹ کر کام کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ شارٹ فلم 'بھیتر' بھی ان کی ایک ایسی ہی کوشش سمجھا جا رہا ہے جس نے سوشل میڈیا پر اپنے موضوع کی وجہ سے دھوم مچادی۔

مظہر معین پاکستان کے مشہور ڈرامے 'قدوسی صاحب کی بیوہ' کے علاوہ 'چمگادڑ' کے نام سے ایک ٹیلی فلم بھی بنا چکے ہیں۔ اس فلم میں صنم بلوچ نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا تھا جس کی شادی جنسی قوت سے محروم شخص سے ہو جاتی ہے۔

اس سے پہلے بھی وہ سیم سیکس ایشو کو اپنی سیریل 'بہکاوا' میں ہائئ لائٹ کرچکے ہیں جسے رائٹر فصیح باری نے تحریر کیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مظہر معین کا کہنا تھا کہ دوسروں کی رائے کے ڈر سے آپ کوئی بھی چیز نہیں بناسکتے ہیں جو چیز آپ کے ذہن میں ہے اسے منظر عام پر لانے کے لیے آپ کا دلیر ہونا بہت ضروری ہے۔

مظہر معین کے مطابق'بھیتر' کا مطلب 'اندر' ہے اور یہ کہانی بھی ان لوگوں کی ہے جو اپنے آپ سے زندگی بھر اندرہی اندر لڑ رہے ہوتے ہیں کیوں کہ خود پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا ۔

اُن کے بقول یہ لوگ ہمارے معاشرے کا ہی حصہ ہوتے ہیں اور ان کی خود سے جنگ دکھانا اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ اس عوام کو آگاہ کیا جاسکے جن کی نظرمیں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ '

ان کے بقول انہوں نے جب اپنے یوٹیوب چینل میم کہانی کی بنیاد رکھی تھی تو ان کے ذہن میں مختصر دورانیے کی مختلف کہانیاں تھیں جن میں کم وقت میں بڑا پیغام دیا جاسکے۔

اُن کے بقول "معاشرے میں اس قسم کے لوگوں کو قبول نہ کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس لیے 'بھیتر' میں ان کو قبول کرنے کی بات کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ ان لوگوں کی اپنی زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے جو اس بارے میں کسی سے بات نہیں کرسکتے۔ وہ خود جنگ لڑرہے ہوتے ہیں جس کے نتائج بہت برے ہو سکتے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے کہ ان کی اس کاوش میں وہ تمام لوگ شامل تھے جو 'بھیتر' کا مقصد سمجھ کر اس میں کام کرنا چاہتے تھے جن کے اندر کام کا جذبہ تھا اور جو اس حساس موضوع کے لیے موزوں تھے۔

'اب وقت آگیا ہے کہ مختلف موضوعات پر بات ہونی چاہیے'

'بھیتر' میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ جویریہ عباسی بھی تین دہائیوں سے اداکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں تاہم مختلف کام نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی ساس بہو والے ڈراموں میں نظر آتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر 'بھیتر' میں کام کرنے کی حامی بھری تھی۔

جویریہ کا مزید کہنا تھا کہ "جس قسم کے لوگوں کی 'بھیتر' میں عکاسی کی گئی ہےانہیں معاشرہ تسلیم نہیں کرتا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ انہیں معاشرے کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ کیوں کہ اب دنیا خاصی بدل چکی ہے اور لوگ کافی بدل رہے ہیں۔ جہاں تک ہم جنس پرستی کی بات ہے تو بند دروازوں کے پیچھے کافی کچھ ہورہا ہے جس کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔"

جویریہ عباسی کا کہنا تھا 'بھیتر' جیسا کام کرنے کے مواقع بہت کم ہی ملتے ہیں۔ لیکن نئے پلیٹ فارم آنے کی وجہ سے اب فلم میکرز کے پاس اپنی کہانیاں بتانے کے لیےکئی آپشن ہیں۔

جویریہ کے بقول 'یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم کے کامیاب ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان میں سنسر بورڈ کا عمل دخل نہ ہوناہے اور اسی وجہ سے کئی ایسے موضوعات پر بات ہورہی ہے جن پر پہلے بات نہیں ہوتی تھی۔

'ہندو مذہب کے کردار دکھانے کا مقصد کسی کو ٹارگٹ کرنا نہیں تھا'

'بھیتر' میں جویریہ عباسی ایک ایسی عورت کا کردار ادا کررہی ہیں جس کا تعلق ہندو مذہب سے ہے اور ٹیزر میں بھی اس بات کی عکاسی کی گئی ہے۔ ہدایت کار مظہر معین کا کہنا تھا کہ انہوں نے مرکزی کردار کو ہندو صرف ویژیول چینج کے لیے دکھایا ،اس کے پیچھے کسی کو ٹارگٹ کرنا مقصد نہیں تھا ۔

مظہر معین کہتے ہیں کہ "یہ کہنا درست نہیں کہ اس فلم میں کسی کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا ہے بلکہ ایسا صرف لوگوں کو کچھ نیا دکھانے کے لیے کیا گیا۔اگر ردِعمل یا کسی قسم کا ڈر خوف ہوتا تو کبھی ایسی شارٹ فلم نہ بناتا اور جب جلد یہ فلم یو ٹیوب پر ریلیز ہوگی تو اسے دیکھنے والے مایوس نہیں ہوں گے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو چیز ذہن میں آئی وہ کرنی تھی، اگر وہ سب لوگوں کا سوچتے رہے تو شاید زندگی میں کچھ نہ کرسکیں۔ اپنے اگلے پراجیکٹ 'چوائس ' کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر 'بھیتر' میں قبول کرنے پر ذرا سی بات کی گئی ہے تو 'چوائس' میں دکھایا جائے گا کہ ان لوگوں کے لیے زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے۔

جویریہ عباسی کہتی ہیں کہ آرٹ کی کوئی حد نہیں ہوتی ہر طرح اور ہر جگہ آرٹ ہے۔ کسی دوسرے مذہب کا کردار کرنے میں کوئی شرم کی بات نہیں جو کام نارمل لوگ نہیں کرسکتے وہ کام اداکار کرکے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایسا بھی کیا جاسکتا ہے ۔

وہ کہتی ہیں کہ "اسی دنیا میں رہ کر ہم سب بڑے ہوئے ہیں، کراچی والے تو مختلف کلچرز کے ساتھ رہے ہیں اور وقت گزارا ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کو تو عادت ہونی چاہیے دوسرے کلچر کو اڈاپٹ کرنے کی اسی لیے میرے لیے 'بھیتر' میں کام کرنا آسان تھا۔ـ"

جویریہ عباسی سمجھتی ہیں کہ 'بھیتر' محض ایک چھوٹی سی فلم ہے لیکن اس میں پیغام بہت بڑا ہے، دیکھنے والوں سے ان کی گزارش ہے کہ جب وہ یوٹیوب اور نیٹ فلکس پر دوسرے ممالک کا اسی طرح کام دیکھ کر پسند کرتے ہیں تو انہیں اپنے لوگوں کا بھی مختلف کام دیکھ کر اس کی داد دینی چاہیے۔

'ڈیجیٹل میں ابھی ہم پیچھے ہیں، لیکن اس بارے میں لوگوں کا سوچنا خوش آئند ہے'

پاکستان میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی سست پیش رفت پر بات کرتے ہوئے ہدایت کار مظہر معین کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر چیز میں 'سلو پروگریس 'کرتا ہے۔اگر آہستہ آہستہ ایسی چیزیں ہوتی رہیں تو ایک تو دیکھنے والوں کا پتا چلے گا کہ معاشرے میں اور بھی قسم کی کہانیاں ہوتی ہیں ۔

اُن کا کہنا تھا کہ "ابھی ہم ڈیجیٹل میں پیچھے ہیں۔ لیکن اس پر کام ہورہا ہے اور لوگوں نے اس بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ جب تک آپ ناظرین کو وہ کہانیاں نہیں دکھائیں گے جن کے بارے میں انہیں پتا ہی نہیں تو انہیں کیسے سمجھ آئے گی۔"

اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کی شارٹ فلم کی کہانی 1996 میں دیپا مہتا کی فلم 'فائر' سے کچھ مماثلت رکھتی ہے جس میں نندیتا داس اور شبانہ اعظمی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ مظہر معین کا کہنا ہے کہ یہ کہانی پاکستانی معاشرے کی ہے جس پر بات کرنےسے اگر وہ رک گئے تو اچھی بات نہیں ہوگی۔

مظہر کہتے ہیں کہ "ہمارے لوگوں کو مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز میں بھڑک جاتے ہیں۔ لیکن ہم اتنے کمزور نہیں کہ رک جائیں جو بات آپ کہنا چاہتے ہیں اگر وہ نہیں کہی تو یہ ناانصافی ہو گی۔"ـ

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG