اسرائیل کی لیکوڈ پارٹی کے انتخابات میں وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو اپنی جماعت کے اہم رہنما اور دیرینہ حریف گیدون سار کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ لیکوڈ پارٹی اپنی جماعت کے نئے سربراہ کا چناؤ کرنے جا رہی ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق ان جماعتی انتخابات کے نتائج وزیر اعظم نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں شکست نیتن یاہو کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں ہو گی۔ اگر وہ کم مارجن سے کامیاب بھی ہو گئے تو پھر 20 سال سے اس قدامت پسند جماعت پر اثر و رسوخ رکھنے والے نیتن یاہو کی ساکھ متاثر ہو گی۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اسرائیل کی انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصر اسٹیفن ملر کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو جیت بھی جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ 10 برس کے دوران ووٹرز کی بڑی تعداد انہیں پارٹی صدارت سے الگ دیکھنا چاہتی ہے۔
ان کے بقول اگر 33 فی صد ووٹرز نے بھی نیتن یاہو کے خلاف ووٹ دیے تو یہ بھی ان کی سیاسی شکست شمار ہو گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی میں ایک لاکھ 16 ہزار اراکین کا کردار بھی اب اہم ہو گیا ہے۔
اسرائیل میں لیکوڈ پارٹی کے انتخابات کے لیے سو ووٹنگ مشینیں نصب کی گئی ہیں۔ جس میں ووٹرز جمعرات صبح نو بجے سے رات گیارہ بجے تک اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔ نتائج کا اعلان جمعے کی صبح کیا جائے گا۔
پارٹی انتخابات کا فاتح اسرائیل میں ایک سال کے دوران ہونے والے تیسرے انتخابات میں لیکوڈ پارٹی کا امیدوار ہو گا۔
اسرائیل میں اپریل اور اکتوبر میں ہونے والے انتخابات میں کوئی بھی جماعت واضح برتری حاصل نہیں کر سکی تھی۔
گزشتہ ماہ بنیامین نیتن یاہو پر فراڈ اور رشوت کے الزامات عائد کیے گئے تھے جس کی وہ سختی سے تردید کرتے رہے ہیں۔
گیدون سار کا شمار لیکوڈ پارٹی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ کابینہ کی مختلف وزارتوں کا بھی حصہ رہے ہیں۔ تاہم 2014 میں نیتن یاہو سے اختلافات کے باعث انہوں نے پارٹی سے عارضی کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
انہیں نیتن یاہو کے مقابلے میں فلسطین کے معاملے پر زیادہ سخت گیر موقف رکھنے والا سیاست دان سمجھا جاتا ہے۔
گیدون سار یوں تو وزیر اعظم نیتن یاہو کی کھل کر مخالفت نہیں کر رہے تاہم وہ اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ نیتن یاہو کی بطور اسرائیل کے صدر حمایت کریں گے۔
نیتن یاہو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو پولیس، عدلیہ اور میڈیا کے سیاسی انتقام کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ لیکوڈ پارٹی کے رہنماؤں کو ان کا ساتھ دینے پر زور دیتے رہے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو پر ان الزامات کے تحت فرد جرم بھی عائد کی جا چکی ہے۔ لیکن اسرائیلی آئین کے مطابق فرد جرم عائد ہونے کے باوجود وزیر اعظم اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتا ہے۔
لیکوڈ پارٹی کے بہت سے اہم رہنما کھل کر نیتن یاہو کی حمایت نہیں کر رہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ چند سال قبل تک یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ نیتن یاہو کو ایسی صورتِ حال کا سامنا ہو گا۔
یروشلم کی ہیبرو یونیورسٹی کے پروفیسر گیدون راحت کا کہنا ہے کہ اگر نیتن یاہو معمولی اکثریت سے بھی پارٹی انتخابات جیت گئے تو بھی وہ پارٹی قیادت سے دست بردار نہیں ہوں گے۔
اسرائیل میں ایک سال کے دوران تیسری مدت کے لیے انتخابات اگلے سال 2 مارچ 2020 کو شیڈول ہیں۔