رسائی کے لنکس

نیتن یاہو کی جنگی وقفے پر تنقید کے بعد فوج کی وضاحت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • اسرائیلی فوج نے وضاحت کی ہے کہ تکنیکی توقف کے باوجود رفح میں آپریشن جاری رہے گا۔
  • وقفے کی رپورٹس سنی تو نیتن یاہو اپنے ملٹری سیکریٹری کی طرف متوجہ ہوئے اور واضح کیا کہ یہ ان کے لیے 'ناقابلِ قبول' ہے، اسرائیلی اہلکار
  • نہ تو نیتن یاہو اور نہ ہی اسرائیلی فوج نے نئے انتظام کو منسوخ کیا ہے، اے پی
  • جنگ میں وقفے کا فیصلہ جس نے بھی کیا ہے وہ "احمق" ہے جسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا چاہیے، وزیر قومی سلامتی

ویب ڈیسک _ غزہ میں امداد کی ترسیل کو آسان بنانے کے لیے لڑائی میں روزانہ وقفے کے اسرائیلی وزیرِ اعظم کے فیصلے پر تنقید کے بعد اسرائیلی فوج نے وضاحت کی ہے کہ تکنیکی توقف کے باوجود رفح میں آپریشن جاری رہے گا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ، "جب وزیرِ اعظم نے 11 گھنٹے کے انسانی وقفے کی رپورٹس سنی تو وہ اپنے ملٹری سیکریٹری کی طرف متوجہ ہوئے اور واضح کیا کہ یہ ان کے لیے 'ناقابلِ قبول' ہے۔

تاہم، خبر رساں ادارے 'ایسو سی ایٹڈ پریس' کے مطابق نہ تو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو اور نہ ہی فوج نے غزہ سے متعلق نئے انتظام کو منسوخ کیا ہے۔

اس سے قبل اسرائیلی فوج نے کریم شالوم کراسنگ سے صلاح الدین روڈ تک اور پھر شمال کی طرف روزانہ کے انسانی وقفے کا اعلان کیا تھا۔

اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لڑائی کو روکنے کا معاہدہ اب بھی دور دکھائی دیتا ہے۔

دوسری طرف اقوامِ متحدہ کے حکام اور امدادی تنظیموں کے مطابق تباہ حال غزہ کی ایک بڑی آبادی بے گھر ہے اور خوراک اور طبی سہولیات کی فراہمی میں قلت سے انسانی بحران بدتر ہو رہا ہے۔

اسرائیلی فوج نے واضح کیا ہے کہ رفح میں معمول کی کارروائیاں جاری رہیں گی، جو کہ جنوبی غزہ میں اس کی لڑائی کا مرکز ہے، جہاں ہفتے کے روز آٹھ اسرائیلی فوجی مارے گئے تھے۔

رائٹرز نے رپورٹ دی ہے کہ غزہ جنگ میں وقفے سے متعلق فیصلے کے بعد نیتن یاہو کا ردِعمل غزہ میں امداد کی آمد کے معاملے پر سیاسی تناؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔

اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اور نیتن یاہو کے حکمراں اتحاد میں قوم پرست مذہبی جماعتوں میں سے ایک قائد اتمار بین گویر نے جنگی وقفے کی حکمتِ عملی کے خیال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جس نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے وہ ایک "احمق" ہے جسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا چاہیے۔

دوسری جانب نیتن یاہو کی اتحادی حکومت اور فوج کے درمیان جنگ کے طریقے پر اختلافات پائے جاتے ہیں اور جنگی وقفے سے متعلق جھگڑا اختلافات کا تازہ ترین اظہار ہے۔

حکومت میں شامل سابق جنرل بینی گینتز گزشتہ ہفتے حکومت سے الگ ہو گئے تھے اور انہوں نے نیتن یاہو پر غزہ میں کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہ ہونے کا الزام لگایا تھا۔

اس سے قبل فوج اور حکمراں اتحاد میں تقسیم گزشتہ ہفتے اس وقت سامنے آئی تھی جب اسرائیل کے الٹرا آرتھوڈوکس یعنی انتہائی قدامت پسند یہودیوں کو فوج میں بھرتی کرنے سے متعلق ایک قانون پر پارلیمانی ووٹنگ ہوئی تھی۔

حکمران اتحاد میں شامل مذہبی جماعتوں نے الٹرا آرتھوڈوکس افراد کی بھرتی کی سخت مخالفت کی جب کہ وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے پارٹی کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فوج کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔

اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی نے اتوار کو کہا تھا کہ فوج میں الٹرا آرتھوڈوکس کمیونٹی سے مزید فوجیوں کی بھرتی کی "یقینی ضرورت" ہے۔

آٹھ ماہ سے جاری جنگ کے دوران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عوام میں غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔

گزشتہ سال سات اکتوبر کو جنگ کا باعث بننے والے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے اسرائیل پر حملے میں اسرائیلی خکام کے مطابق تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور تقریبا 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

غزہ کی حماس کے زیرِ انتطام وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی فوجی مہم میں اب تک 37,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور غزہ کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'رائٹرز' اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG