اسرائیل کے وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے مشرق وسطیٰ میں ’’شدت پسند اسلام‘‘ کے خلاف لڑائی میں اسرائیلی اور امریکی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کو ایکساتھ مل کر کام کرنا چاہیئے تاکہ ’’تاریکی پر روشنی اور مایوسی پر امید کی فتح‘‘ کو یقینی بنایا جائے۔
اُنھوں نے اِس بات پر زور دیا کہ ایران کو روکا جائے تاکہ وہ ’’کبھی جوہری ہتھیار تشکیل نہ دے سکے‘‘۔
پیر کو بذریعہ سیٹلائٹ امریکی اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کے سالانہ پالیسی ساز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، نیتن یاہو نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ داعش کے گروپ کا ’’قلع قمع‘‘ کیا جائے جب کہ معتدل مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کو فروغ دیا جائے، تاکہ یہ بات یقینی بنائی جا سکے کہ داعش پھر سے سر نہ اٹھا پائے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ’’ہمیں یہ بات یقینی بنانی چاہیئے کہ شدت پسند اسلام کی قوتوں کو شکست دی جائے‘‘۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ اُنھیں اِس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ’’بنی نوع انسان کو روشن مستقبل کے عہد سے ہٹا کر تاریک ماضی کی پریشان حالی کی جانب دھکیل دیا جائے‘‘۔
اُنھوں نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کرنے اور اقوام متحدہ کے ایجنڈا آئٹم کا امریکی سفیر نکی ہیلی کی جانب سے بائیکاٹ کرنے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہونے کے نتیجے میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف کی جانے والی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے پر انسانی حقوق کی کونسل میں مباحثے کی اجازت ملتی ہے۔
بقول اُن کے، ’’بغیر پختہ امریکی حمایت کے، اسرائیل وہ ملک نہیں رہے گا جو وہ آج ہے‘‘۔
نیتن یاہو نے افریقہ میں اسرائیلی امداد، بیرونی ممالک سے انٹیلی جنس کے اشتراک، قدرتی آفات کے نتیجے میں ملک کی جانب سے امداد کی پیش کش کی نشاندہی کی، جس کا مقصد دنیا کے لیے اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا حوالہ دینا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’جدیدیت اور قرون وسطیٰ کے مابین لڑائی میں، زیادہ سے زیادہ ملک یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اسرائیل اُن کے شانہ بشانہ کھڑا ہے‘‘۔
ایک روز قبل، نائب صدر مائیک پینس نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ’’ایران کو متنبہ کر رکھا ہے‘‘ کہ امریکہ علاقے میں عدم استحکام اور اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ایران کی کوششوں کو برداشت نہیں کرے گا‘‘۔