رسائی کے لنکس

بھارت کی 'اگنی پتھ' اسکیم: نیپال نے گورکھا جوانوں کی بھرتی روک دی


 بھارتی فوج میں گزشتہ 75 برس سے نیپال کے گورکھا جوانوں کی بھرتی ہوتی آئی ہے۔ لیکن اب اس بھرتی پر سوالہ نشان لگ گیا ہے۔
بھارتی فوج میں گزشتہ 75 برس سے نیپال کے گورکھا جوانوں کی بھرتی ہوتی آئی ہے۔ لیکن اب اس بھرتی پر سوالہ نشان لگ گیا ہے۔

نیپال نے بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج پانڈے کے کٹھمنڈو کےدورے سے چند روز قبل بھارتی فوج میں بھرتی کی ’اگنی پتھ‘ اسکیم کے تحت گورکھا جوانوں کی بھرتی روک دی ہے۔ تاہم اس نے ابھی اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔

جنرل منوج پانڈے پانچ ستمبر کو کٹھمنڈو کا دورہ کرنے والے ہیں جہاں انہیں نیپال آرمی کی جانب سے ’اعزازی جنرل‘کا رینک دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ بھارتی فوج میں گزشتہ 75 برس سے نیپال کے گورکھا جوانوں کی بھرتی ہوتی آئی ہے۔ لیکن اب اس بھرتی پر سوالہ نشان لگ گیا ہے۔

نیپال کا مؤقف

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیپال کے وزیرِ خارجہ نرائن کھڑکا نے بدھ کو نیپال میں بھارت کے سفیر نوین سری واستو کو بتایا کہ 'اگنی پتھ اسکیم' کے تحت گورکھا جوانوں کی بھرتی نو نومبر 1947 کو نیپال، بھارت اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے سہ فریقی معاہدے کے مطابق نہیں ہے۔

ایسا سمجھا جاتا ہے کہ کھڑکا نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز سے وسیع تر مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق 25 اگست سے شروع ہونے والی گورکھا بھرتی اسکیم کا آغاز نہیں ہو سکا۔ بھرتی کا یہ پروگرام نیپال کے مختلف علاقوں میں 29 ستمبر تک چلنے والا تھا۔ بھارت نے کٹھمنڈو میں اہلکاروں سے رابطہ قائم کیا تھا اور بھرتی کی منظوری اور سیکیورٹی تعاون کے لیے اپیل کی تھی۔

’بھارت نے نیپال سے مشورہ نہیں کیا‘

نیپالی میڈیا کے مطابق وزیرِ اعظم شیر بہادر دیوبا نے وزیرِ خارجہ نرائن کھڑکا اور حکومت کے سینئر اہلکاروں سے اس معاملے پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔

نیپالی حکو مت کے بعض اہلکاروں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے اگنی پتھ اسکیم لانچ کرنے سے قبل نیپال سے مشورہ نہیں کیا۔ اس نے صرف یہ اطلاع دے دی کہ وہ نئی اسکیم کے تحت جوانوں کی بھرتی کر رہا ہے۔

چودہ جون کو اس اسکیم کے اعلان کے بعد بھارتی فوج نے کٹھمنڈو میں بھارتی سفارت خانے کے توسط سے وہاں کی وزارتِ خارجہ سے نیپال کے شہر بُٹوَل اور دھران میں بھرتی کی منظوری اور سیکیورٹی تعاون کی اپیل کی تھی۔

لیکن جب نیپال کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا تو بھارت نے بھرتی کی تاریخوں کا اعلان روک دیا۔ تاہم میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 25 اگست سے بھرتی کا عمل شروع ہونے والا تھا۔ لیکن اب اسے روک دیا گیا ہے۔

نیپال میں اگنی پتھ کے بارے میں تشویش

نیپال میں اس سلسلے میں کافی تشویش پائی جا رہی ہے کہ چار سال کی ملازمت کے بعد سبکدوش ہونے والے جوان بے روزگار ہو جائیں گے اور ان کا مستقبل غیر یقینی ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ان نوجوانوں کی بے روزگاری کا معاشرے پر اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عسکریت پسند تنظیمیں بے روزگار نوجوانوں کا غلط استعمال کر سکتی ہیں۔

اس معاملے پر غور کرنے کے لیے نیپالی پارلیمنٹ کی اسٹیٹ ریلیشنز کمیٹی کا ایک اجلاس ہونے والا تھا لیکن کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہو گیا۔

بھارت کا مؤقف

دریں اثنا بھارت نے کہا ہے کہ بھارتی فوج ایک طویل مدت سے گورکھا جوانوں کی بھرتی کرتی رہی ہے اور یہ مشق اگنی پتھ اسکیم کے تحت بھی جاری رہے گی۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی سے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں جب نیپال میں پائی جانے والی تشویش کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے مذکورہ بیان دیا۔ بھارتی آرمی کی گورکھا رجمنٹ میں 43 بٹالین ہیں جن میں نیپال کے علاوہ بھارتی رنگروٹ بھی ہوتے ہیں۔

بھارت میں اگنی پتھ اسکیم کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
بھارت میں اگنی پتھ اسکیم کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے تھے۔

کانگریس کی تنقید

حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس معاملے پر مودی حکومت کی پالیسی پر تنقید کی ہے۔

پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر سبودھ کانت سہائے نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ حکومت کی اگنی پتھ اسکیم ملک کی سلامتی کے ساتھ ساتھ بھارت نیپال رشتوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ ان کے بقول ملک مودی حکومت کی غیر دانش مندانہ پالیسیوں کی قیمت ادا کر رہا ہے۔

سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کے مطابق نیپال بہت پہلے سے بھارتی آرمی میں گورکھا کی بھرتی روکنا چاہ رہا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنہوں نے کہا کہ نیپال کے سابق وزیرِ اعظم بابو رام بھٹارائی نے 2011 میں اس سلسلے میں ایک تجویز پارلیمنٹ میں پیش کی تھی جس پر بحث نہیں ہو سکی تھی۔ اب نیپال اگنی پتھ اسکیم کی آڑمیں اپنے نوجوانوں کو بھارتی فوج میں بھرتی ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

’بھارت کو محتاط رہنا چاہیے‘

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کو اگنی پتھ اسکیم کے تحت نیپالی جوانوں کی بھرتی پر زور نہیں دینا چاہیے۔ یہ بھارت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ کیونکہ چین بھی نیپال بھارت سرحدوں پر اپنے بھرتی کردہ گورکھا جوانوں کو تعینات کرنا چاہتا ہے۔

خیال رہے کہ بہار اور اترپردیش سے متصل نیپال بھارت سرحد پر بعض مقامات پر چینی جوان بھی تعینات ہیں اور چین کے مقرر کردہ نیپالی گارڈز بھی متعین ہیں۔ لہٰذا تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کو اس معاملے پر بہت محتاط انداز میں فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چند سال قبل بھارت اور نیپال کے درمیان بعض امور پر اختلافات پیدا ہوئے تھے جنہیں بہرحال دور کر لیا گیا ہے۔ لیکن اب بھارتی آرمی چیف کے دورے سے قبل نیپال کے اس اقدام کو دوطرفہ رشتوں کے حوالے سے اچھا خیال نہیں کیا جا رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ چین نیپال میں اپنے اثرات بڑھا رہا ہے۔ لہٰذا بھارت کو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے نیپال کا جھکاؤ چین کی جانب ہو جائے۔

پشپ رنجن کے خیال میں یہ ریونیو کا بھی معاملہ ہے۔ کیونکہ برٹش اور سنگاپور کی فوج میں بھرتی ہونے والے نیپالی جوانوں کو زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔ سبکدوشی کے بعد ان کو پینشن کی شکل میں اچھی رقوم ملتی ہیں۔ جب کہ اگنی پتھ اسکیم میں جو تنخواہ ملے گی وہ پینشن کے برابر بھی نہیں ہوگی۔

اگنی پتھ اسکیم کے خلاف پرتشدد احتجاج ہوا تھا

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے 18 سے 21 سال کے نوجوانوں کی مسلح افواج میں بھرتی کے لیے 14 جون کو ایک قلیل مدتی اسکیم ’اگنی پتھ‘ لانچ کی ہے جس کے مطابق چار سال کے لیے بھرتی کی جائے گی۔

اس کے بعد اہلیت کی بنیاد پر ان میں سے 25 فی صد کو بحال رکھا جائے گا۔ باقی جوانوں کو گیارہ بارہ لاکھ روپے دیے جائیں گے تاکہ وہ کوئی کاروبار کر سکیں۔ وہ دوسرے محکموں میں ملازمت کے لیے درخواست بھی دے سکیں گے۔

حکومت کی اس اسکیم کے خلاف پورے ملک میں اور خاص طور پر بہار میں بڑے پیمانے پر پرتشدد احتجاج ہوا تھا۔ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو کافی نقصان پہنچایا گیا۔احتجاجی نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ کئی کئی برس سے فوج میں بھرتی ہونے کے لیے مشق کر رہے تھے لیکن اب ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔

تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کی جانب سے اس اسکیم سے پیچھے نہ ہٹنے کے اعلان کے بعد بہت سے نوجوان اس اسکیم کے تحت فوج میں بھرتی ہونے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بے روزگار رہنے سے اچھا ہے کہ چار سال کے لیے ہی ملازمت کر لی جائے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG