رسائی کے لنکس

میانمار: پوست کی جگہ کافی کی کاشت


گذشتہ برس کے اواخر میں، اقوام متحدہ کا منشیات اور جرائم سے متعلق ادارہ متبادل کاشت کے طور پر، کافی کی کاشت کی سفارش کرتا رہا ہے۔ اُنھیں اس بات کی توقع ہے کہ پہاڑی خطے کی اونچائی برآمد کے درجے کی بہترین کوالٹی کی کافی پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گی

یہ وہ علاقہ ہے جہاں کے کاشت کاروں نے پوست کے پودے کاشت کرنا شروع کیے۔ ان پودوں سے گوند نکلتی ہے، جسے ہیروئن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

لیکن، آٹھ برس قبل، اس روایتی ’نقدی کی کاشت‘ کی مارکیٹ بھونچال کا شکار ہوئی۔ میانمار کی جنوبی ریاست، شان کی پہاڑیوں کی اوٹ میں واقع اس خطے میں، لونگ توے نامی گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کی طرح، اُنھوں نے بھی ’چروٹ‘ کے پتے کی کاشت کی، جن سے سگار بنائے جاتے ہیں۔

بقول اُن کے، جب میں نے پوست کی کاشت شروع کی، مجھے ایک سال میں تقریباً 2500 ڈالر (30 لاکھ کیات) کا منافع ہوا؛ جب کہ چیروٹ پتوں کی کاشت میں محض 250 ڈالر (300000 کیات) بنا پاتا تھا‘۔

اس غیر متوقع فائدے کے باوجود، لونگ سان اور اس علاقے کے دیگر کاشت کار جن سے ’وائس آف امریکہ‘ نے انٹرویو لیا، اب کہتے ہیں کہ پوست کی غیرمستقل کاشت، پہاڑیوں سے درختوں کی کٹائی کے نتیجے میں زمین کا کٹاؤ اور حکومت کے انسداد کے پروگرام کے خدشات کے باعث وہ اس غیرقانونی کاشت کاری کو خیرآباد کہنے پر تیار ہیں۔

گذشتہ برس کے اواخر میں، اقوام متحدہ کا منشیات اور جرائم سے متعلق ادارہ متبادل کاشت کے طور پر، کافی کی کاشت کی سفارش کرتا رہا ہے۔ اُنھیں اس بات کی توقع ہے کہ پہاڑی خطے کی اونچائی برآمد کے درجے کی بہترین کوالٹی کی کافی پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گی۔

سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے پتا چلا ہے کہ گذشتہ سال میانمار کی تقریباً 57600 ہیکٹر زمین پر پوست کی کاشت کی گئی، اور یوں، افغانستان کے بعد، یہ دنیا میں پوست کی سب سے بڑی کاشت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افیون کی زیادہ تر مقدار کو شان ریاست میں ہیروئن میں تبدیل کیا جاتا ہے، جہاں منشیات کی ایک گھرو بازار قائم ہو چکی ہے، جب کہ یہاں کے لوگوں کا معیار زندگی دیدنی ہے۔

لونگ سان نےگذشتہ سال اپنے چھوٹے سے قطع زمین پر کافی کی کاشت کی، جس کے کناروں پر سایہ دار شاہ بلوط کے درخت اگائے، جنھیں وہ حالیہ بارشوں کے موسم میں دوگنا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

لونگ سان اب بھی اپنی زمین پر پوست ہی کاشت کرتے ہیں۔ تاہم، اُن کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کافی کی ہی پیداوار کریں، جسے قابل منافعہ ہونے کے لیے تین برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

بقول اُن کے، ’اگلے سال اس ساری زمین پر کافی ہی نظر آئے گی‘۔

اقوام متحدہ کافی کے بیج اور کیمیائی کھاد کی فراہمی کے علاوہ، کاشتکاروں کو دیگر امداد دیتا ہے۔
یہ ادارہ باہمی تعاون پر مبنی کاشتکاری کے لیے آگہی اور امداد فراہم کرتا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کافی کے بیج کی برآمد کی جا سکے۔

XS
SM
MD
LG