رسائی کے لنکس

نو مئی کے واقعات: 102 افراد فوج کی حراست میں ہیں، اٹارنی جنرل کا سپریم کورٹ میں بیان


سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوئی بچہ، عورت، صحافی، وکیل اس وقت تک ملٹری کی حراست میں نہیں۔

ان کے بقول ایک نوجوان فوج کی حراست میں ہے جس کی عمر کا تعین ہو رہا ہے۔ اگر وہ 18 سال سے کم ہوا تو واپس بھیج دیں گے۔

اٹارنی جنرل کے مطابق اسلام آباد پولیس کی تحویل میں کوئی شخص نہیں ہے۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائلز کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان، ماہرِ قانون بیرسٹر اعتزاز احسن اور کرامت علی نے سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں دائر کی ہیں۔

جمعے کو ان درخواستوں پر ایک مرتبہ پھر سماعت شروع ہوئی تو پنجاب حکومت کی جانب سے نو مئی کے واقعات کے بعد ہونے والی گرفتاریوں اور رہائی سے متعلق رپورٹ پیش کی۔

پنجاب حکومت کی رپورٹ کے مطابق نو مئی کے واقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے جب کہ 39 خواتین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں قید ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نقضِ امن کی دفعہ تھری ایم پی او کے تحت 2258 افراد کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے اور اس وقت ایم پی او کے تحت 21 افراد جیلوں میں قید ہیں جب کہ توڑ پھوڑ کے واقعات میں 3050 افراد ملوث پائے گئے ہیں۔

انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف 51 مقدمات درج کیے گئےاور 1888 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ جن میں سے 108 ملزمان جسمانی ریمانڈ پر اور 1247 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت 33 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی اور 500 افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کیا گیا جب کہ 232 افراد ضمانت پر رہا ہوئےہیں۔

رپورٹ کے مطابق نو مئی واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف دیگر قوانین کے تحت 247 مقدمات درج کیے گئے جن کے تحت 4119 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 86 ملزمان کوجسمانی ریمانڈ، 2464 کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا جب کہ 368 افراد کی شناختی پریڈ کی گئی اور اب تک 1201 افراد کو بری کیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت کی رپورٹ میں فوج کی حراست میں موجود افراد ، نابالغ بچوں، صحافیوں اور وکلا کا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG